زخم سے رستے لہو کو سرخ پانی کر گیا
زخم سے رستے لہو کو سرخ پانی کر گیا
جب بھی وہ آیا حقیقت کو کہانی کر گیا
آسماں سے اک سمندر کی طرح اترا تھا وہ
وقف ہر صحرا نشیں کے زندگانی کر گیا
میں تمہارا آئنہ ہوں عکس اپنا دیکھ لو
ختم اس جملے پہ ساری لن ترانی کر گیا
چاند کے اجلے بدن پر ایک کالا سا نشان
زندگی کے روز و شب کی ترجمانی کر گیا
اس کے انداز تکلم میں یہ کیسا سوز تھا
پتھروں کے جسم کو بھی پانی پانی کر گیا
مصلحت جانے اسے یا سمجھیں انسانی حقوق
اک ستم گر بے توقع مہربانی کر گیا
شہزرؔ اپنے جسم پر کمبل لپیٹے اک فقیر
ساری دنیا پر سنا ہے حکمرانی کر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.