زخم ترے اطوار کے اکثر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
زخم ترے اطوار کے اکثر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
تیر زباں تلوار کے نشتر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
چہرے بدلے عادت بدلی روح نے پھونکی جان نئی
ورنہ سب مٹی کے پیکر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
کون پڑا ہوگا رستوں پر کس کو پوجا جائے گا
یوں دیکھو تو سارے پتھر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
نفرت نے ہے خون بچھایا دنیا کی جن گلیوں میں
ان ساری گلیوں کے منظر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
کانٹوں کے ہوں مخمل کے یا فٹ پاتھوں کی گود میں ہوں
نیند اگر ہو سارے بستر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
آئینے جب ڈھونڈ رہے ہوں جھوٹ نگر میں سچائی
سارے چہرے سب چہروں پر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
دولت غربت شاہ گداگر سب دنیا کے میلے ہیں
تربت میں فقرا و سکندر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
گھر ہو یا صحرا کا دامن مجھ کو ہے سب ایک نسیمؔ
ویرانے تو اندر باہر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.