زخموں کی اور چھالوں کی بھی انجمن رہے
زخموں کی اور چھالوں کی بھی انجمن رہے
تلووں میں نوک خار سفر کی چبھن رہے
یہ کیا ہوا کہ چار قدم چل کے مل گئی
منزل ملے تو پاؤں میں کچھ تو تھکن رہے
دشمن کا کوئی تیر نہ آیا ہماری سمت
جب تک سروں سے باندھے ہوئے ہم کفن رہے
زندوں کے جسم کے لیے رکھ دو نئے لباس
میرے بدن پہ کوئی پرانا کفن رہے
نکلے جو تیر جسم سے محسوس ہی نہ ہو
بندہ خدا کے سامنے ایسا مگن رہے
مذہب پہ حرف آئے تو لازم ہے احتجاج
لیکن اس احتجاج میں شائستہ پن رہے
ایماں پہ بات آئی تو سوچا نہیں کبھی
تن سے جدا ہو سر کہ یہ باقی بدن رہے
دنیائے ناتراش کو اس سے غرض نہیں
دامن پہ کوئی داغ لگے یا شکن رہے
ٹکڑوں میں اور فرقوں میں بٹنے لگا وطن
کس کو پتہ ہے کل کو یہ کیسا وطن رہے
شعرا و سامعین کی بھی بزم شعر میں
احسنؔ یہ آرزو ہے کوئی گل بدن رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.