زلزلے کا خوف طاری ہے در و دیوار پر
زلزلے کا خوف طاری ہے در و دیوار پر
جبکہ میں بیٹھا ہوا ہوں کانپتے مینار پر
ہاں اسی رستے میں ہے شہر نگار آرزو
آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر
پھر اڑا لائی ہوا مجھ کو جلانے کے لیے
زرد پتے چند سوکھی ٹہنیاں دو چار پر
طائر تخئیل کا سارا بدن آزاد ہے
صرف اک پتھر پڑا ہے شیشۂ منقار پر
وقت کا دریا تو ان آنکھوں سے ٹکراتا رہا
اپنے حصے میں نہ آیا لمحۂ دیدار پر
سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آ گیا
چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.