زمانے بھر سے کیا اپنے سے بیگانہ بناتی ہے
زمانے بھر سے کیا اپنے سے بیگانہ بناتی ہے
محبت وہ بری شے ہے کہ دیوانہ بناتی ہے
حقیقت تھی پتنگے کی مگر اک بے حقیقت تھی
یہی لو ہے جو پروانے کو پروانہ بناتی ہے
عنایت ہو جو ساقی کی تو دل کوزہ نہیں رہتا
سما جاتا ہے خم جس میں وہ پیمانہ بناتی ہے
وہ چھپ کے رہ نہیں سکتے کسی گوشے میں بھی دل کے
فراوانیٔ جلوہ آئنہ خانہ بناتی ہے
میں خم کے خم بھی پی جاؤں تو لغزش ہو نہیں سکتی
مگر مستی تری آنکھوں کی مستانہ بناتی ہے
نگاہ فتنہ ساماں بھی نگاہ ملتفت نکلی
بسا کر دل کی بستی خود ہی ویرانہ بناتی ہے
دو حرف غم کے قصے کو اک آہ ناتواں کھنچ کر
نہ پورا حشر تک ہو ایسا افسانہ بناتی ہے
نکلنا پاؤں کا چادر سے ہے سامان رسوائی
ہوس بڑھ جاتی ہے حد سے تو دیوانہ بناتی ہے
اساس زندگی نوابؔ ہے امید فردا کی
یہی دل کے خرابے کو پری خانہ بناتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.