زمانے کے تغافل سے جو ہر لمحہ بکھرتی ہے
زمانے کے تغافل سے جو ہر لمحہ بکھرتی ہے
سنا ہے آپ کے در پر وہی قسمت سنورتی ہے
تصور سے ہی جس کے آج کل یہ روح ڈرتی ہے
نظر کے سامنے یارب وہی صورت ابھرتی ہے
کمی ہوگی نہ ہرگز آسماں تیرے خزانے میں
ذرا سی چاندنی گر میرے آنگن میں اترتی ہے
کئی دریاؤں کا پانی یقیناً اس سے کم ہوگا
مصیبت جس قدر آنسو مری آنکھوں میں بھرتی ہے
وہیں اپنی بھی کشتی آ گئی طوفاں کی شدت سے
جہاں پر زندگی برباد ہو کر آہ بھرتی ہے
مہکتے تھے مرے دن رات جس کی میزبانی سے
وہ خوشبو آج کل جانے کہاں پرواز کرتی ہے
سنائیں کیا ہم اپنے حال کو بس مختصر تشنہؔ
ہماری زندگی بھی آج کل یوں ہی گزرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.