زمانے لوٹ کے آئیں گے اعتبار کے بھی
زمانے لوٹ کے آئیں گے اعتبار کے بھی
جناب ملیے کسی دن نقاب اتار کے بھی
وہ حق ہی ہم نے جتایا نہیں کبھی جاناں
ہمارے ہاتھ میں موسم تھے اختیار کے بھی
چراغ ہم نے جلائے نہیں ہیں اب کی بار
کہ مسئلے تھے ہواؤں پہ اعتبار کے بھی
یہ باغبان عجب ہیں خزاں ہی لکھتے ہیں
لکھے تھے اپنے مقدر میں دن بہار کے بھی
ندی کہاں سے چلی پربتوں پہ کس سے ملی
یہ راز دفن ہے سینے میں آبشار کے بھی
اب ان کو کون سے القاب سے پکارا جائے
جو تاجدار ہیں سودا دلوں کا ہار کے بھی
سنا ہے ٹوٹے ہوئے دل میں ہے ترا مسکن
خود اپنے سینے میں دیکھا تجھے پکار کے بھی
کہ جاں نثاروں سے مانگا ہے شہریت کا ثبوت
ارادے نیک نہیں لگتے شہریار کے بھی
ستم تو اپنی جگہ ہیں ستم کے دکھ تسلیم
اٹھانے پڑتے ہیں احسان غم گسار کے بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.