زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
یہ کیسا بوجھ ہمارے بدن پہ آن گرا
بہت سنبھال کے رکھ بے ثبات لمحوں کو
ذرا جو سنکی ہوا ریت کا مکان گرا
اس آئینے ہی میں لوگوں نے خود کو پہچانا
بھلا ہوا کہ میں چہروں کے درمیان گرا
رفیق سمت سفر ہوگی جو ہوا ہوگی
یہ سوچ کر نہ سفینے کا بادبان گرا
میں اپنے عہد کی یہ تازگی کہاں لے جاؤں
اک ایک لفظ قلم سے لہولہان گرا
قریب و دور کوئی شعلۂ نوا بھی نہیں
یہ کن اندھیروں میں ہاتھوں سے شمع دان گرا
فضاؔ کو توڑ تو پھینکا ہواؤں نے لیکن
یہ پھول اپنی ہی شاخوں کے درمیان گرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.