زمیں کا رزق ہے یا سوئے آسماں گئی ہے
زمیں کا رزق ہے یا سوئے آسماں گئی ہے
ہمارے گنبد دل کی صدا کہاں گئی ہے
ملے کہاں سے کہ اب رائیگاں نہ ہونے دوں
یہ زندگی تو مری سخت رائیگاں گئی ہے
میں دل ہی دل میں نشیمن کی خیر مانگتا ہوں
چمن کی سمت صبا یوں تو مہرباں گئی ہے
گماں یہی تھا کہ اب وہ شبیہ خون آلود
چلی گئی تہ دل سے مگر کہاں گئی ہے
یہ سوچتا ہوں بھٹکتی ہوئی نظر سے کاش
وہیں وہیں پہ نہ جاتی جہاں جہاں گئی ہے
ہر ایک شے پہ مجھے اعتبار آنے لگا
یقیں کی لہر بہ اندازۂ گماں گئی ہے
سمجھ نہ خود کو تو اے بحر بیکراں تنہا
نظر بھی ساتھ ترے ہو کے بے کراں گئی ہے
ہزار ساعت آئندہ خون روتی ہے
یہ چشم نم جو کبھی سوئے رفتگاں گئی ہے
یہ موج اس کو چٹانوں پہ سر پٹکنا ہے
جو آبشار کی جانب رواں دواں گئی ہے
ہر ایک نیند میں ڈوبے ہوئے شبستاں تک
بلا سے کوئی نہ جاگے مگر اذاں گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.