زمیں کی خاک کو خاک شفا بناتے ہوئے
زمیں کی خاک کو خاک شفا بناتے ہوئے
سناں تک آ گئے انسانیت بچاتے ہوئے
پکڑ کے رخت سفر میں رکھے ہیں کچھ جگنو
چلیں گے شب میں یہی راستہ دکھاتے ہوئے
جگر میں درد اٹھا تو کسی کی یاد آئی
چھلک گئیں مری آنکھیں غزل سناتے ہوئے
اذان صبح شہادت میں ہو گئے شامل
چراغ جذبۂ نصرت کی لو بڑھاتے ہوئے
لہو ٹپکنے لگا میری چشم غیرت سے
برہنہ سر کے لئے اک ردا بناتے ہوئے
دیار شام قیامت میں ہو گیا تبدیل
کچھ ایسے آئے ہیں خورشید جگمگاتے ہوئے
ہر ایک چہرۂ پروانۂ وفا کو پڑھا
چراغ خیمۂ انصار کو بجھاتے ہوئے
کبھی اندھیروں کبھی سرد موسموں سے لڑے
ہم اپنی جسم کی پوشاک کو جلاتے ہوئے
کسی کی یاد شہادت کا انعقاد کیا
ذرا سی دیر لگی آسماں بلاتے ہوئے
بچا کے لے گئے گرداب سے سفینے کو
ہم اپنے خون کے سیلاب میں نہاتے ہوئے
کسی نے ایسی رہ مستقیم دکھلائی
سنبھل گئے کئی افراد لڑکھڑاتے ہوئے
کوئی خدائی کا اس کی نہیں ہے دعوے دار
یہ کون مر گیا خود کو خدا بتاتے ہوئے
سنا ہے مارے گئے وہ فساد میں بچے
ہمیں سلام جو کرتے تھے آتے جاتے ہوئے
تمام اس کا سر ابتدا ہوا نہ رفیعؔ
زمانے ہو گئے جو داستاں سناتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.