زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں
وہی بر آمد کروں گا جو چیز کام کی ہے
زباں کے باطن سے بے زبانی نکالتا ہوں
فلک پہ لکھتا ہوں خاک خوابیدہ کے مناظر
زمین سے رنگ آسمانی نکالتا ہوں
کبھی کبوتر کی طرح لگتا ہے ابر مجھ کو
کبھی ہوا سے کوئی کہانی نکالتا ہوں
بہت ضروری ہے میرا اپنی حدوں میں رہنا
سو بحر سے خود ہی بے کرانی نکالتا ہوں
کبھی ملاقات ہو میسر تو اس سے پہلے
دماغ سے ساری خوش گمانی نکالتا ہوں
جو چھیڑتا ہوں نیا کوئی نغمۂ محبت
تو ساز دل سے دھنیں پرانی نکالتا ہوں
کوئی ٹھہر کر بھی دیکھنا چاہتا ہوں منظر
اسی لیے طبع سے روانی نکالتا ہوں
ظفرؔ مرے سامنے ٹھہرتا نہیں ہے کوئی
تو اپنے پیکر سے اپنا ثانی نکالتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.