زمیں سے آسماں تک یا مکاں سے لا مکاں تک ہے
زمیں سے آسماں تک یا مکاں سے لا مکاں تک ہے
جمال یار کا پرتو خدا جانے کہاں تک ہے
چمن میں بجلیو کچھ اور بھی تو آشیانے ہیں
مگر سارا تبسم صرف میرے آشیاں تک ہے
مرے شور جنوں سے حسن کی ہے گرم بازاری
تجلی شمع کی پروانۂ آتش بجاں تک ہے
نشاط جاوداں ہوتا ہے حاصل بے نیازی سے
وجود رنج و غم اندیشۂ سود و زیاں تک ہے
نگاہ شوق کی گستاخیاں کر دیں گی شوخ ان کو
ہمیں بھی دیکھنا ہے شرم کی وسعت کہاں تک ہے
مرے ایمان و دل کی کیا ہے قیمت جب کہ اے زاہد
تصدق ان کے جلوؤں پر متاع دو جہاں تک ہے
جو ہیں بے خانماں ان کو سرور زندگی کیا ہو
مزہ گلشن میں رہنے کا وجود آشیاں تک ہے
سفینے غرق لاکھوں ہو گئے بحر محبت میں
خدا معلوم اس دریا کی گہرائی کہاں تک ہے
تامل کیا ہے کر لے بیعت دست سبو زاہد
خبر بھی ہے کہ اس کا سلسلہ پیر مغاں تک ہے
مرے مٹتے ہی مٹ جائے گی شان برہمی تیری
ترے خنجر کی شوخی میرے زخم خوں چکاں تک ہے
جنون شوق سے ادراک ہوگا ان کے جلوے کا
خرد کی کار فرمائی فقط وہم و گماں تک ہے
ولیؔ دو ایک ساعت میں لکھی آخر غزل تو نے
ترے فکر فلک پیما کی جولانی یہاں تک ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.