زنجیر کٹ کے کیا گری آدھے سفر کے بیچ
زنجیر کٹ کے کیا گری آدھے سفر کے بیچ
میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا رہ گزر کے بیچ
اترا لحد میں خواہشوں کے ساتھ آدمی
جیسے مسافروں بھری ناؤ بھنور کے بیچ
دشمن سے کیا بچائیں گی یہ جھاڑیاں مجھے
بچتے نہیں یہاں تو پیمبر شجر کے بیچ
جتنا اڑا میں اتنا الجھتا چلا گیا
اک تار کم نما تھا مرے بال و پر کے بیچ
دیتے ہو دستکیں یہاں سر پھوڑتے ہو واں
کچھ فرق تو روا رکھو دیوار و در کے بیچ
گھر سے چلا تو گھر کی اداسی سسک اٹھی
میں نے اسے بھی رکھ لیا رخت سفر کے بیچ
تھکنے کے ہم نہیں تھے مگر اب کے یوں ہوا
دیتا رہا فریب ستارہ سفر کے بیچ
میرا سبھی کے ساتھ رویہ ہے ایک سا
شاہدؔ مجھے تمیز نہیں خیر و شر کے بیچ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.