ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک
ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک
ہنسی نے چھوڑ دیا لا کے جگ ہنسائی تک
بھلے سے اب کوئی تیری بھلائی گنوائے
کہ میں نے چاہا تھا تجھ کو تری برائی تک
تو چپکے چپکے مروت سے کیوں بچھڑتا ہے
مرا غرور بھی تھا تیری کج ادائی تک
مجھے تو اپنی ندامت کی داد بھی نہ ملی
میں اس کے ساتھ رہا اپنی نارسائی تک
اس آئینہ کا تو اب ریزہ ریزہ چبھتا ہے
یہ آئینہ جسے تکتی رہی خدائی تک
یہ حادثہ ہے مرے ضبط حال کے ہاتھوں
سفید ہو گئی کاغذ پہ روشنائی تک
پکارتی رہیں آنکھیں چلا گیا ہے کوئی
وہ اک سکوت تھا آواز سے دہائی تک
نکل کے دیکھا قفس سے تو آنکھ بھر آئی
وہ فصل گل کہ کھڑی تھی مری رہائی تک
غضب ہے ٹوٹ کے چاہا تھا شاذؔ نے جس کو
سنا یہ رسم بھی تھی صورت آشنائی تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.