ذرا سی رات اور اتنا ثواب کافی ہے
ذرا سی رات اور اتنا ثواب کافی ہے
مری نظر کو فقط تیرا خواب کافی ہے
میں چاہتی نہیں مجھ کو ورق ورق لکھ دے
سر ورق ہے جو اک انتساب کافی ہے
میں کیا کروں گی یہ اتنی کہانیاں لے کر
مرے لیے تو فقط اک کتاب کافی ہے
میں اپنی پیاس کو محسوس کر کے جیتی ہوں
سمندروں کی طلب کیا سراب کافی ہے
میں تجھ سے ملتی ہوں فرحتؔ تو خوف آتا ہے
کہ مجھ پہ تیرا پرانا حساب کافی ہے
نہیں ہیں لفظ میسر تو پھر تأثر بھیج
کسی بھی شکل میں ہو اک جواب کافی ہے
خیال یار کہاں ہے کوئی بتائے اسے
مرے لیے وہی خانہ خراب کافی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.