ذرۂ ناتپیدہ کی خواہش آفتاب کیا
ذرۂ ناتپیدہ کی خواہش آفتاب کیا
نغمۂ ناشنیدہ کا حوصلۂ رباب کیا
عمر کا دل ہے مضمحل زیست ہے درد مستقل
ایسے نظام دہر میں وسوسۂ عذاب کیا
نغمہ بہ لب ہیں کیاریاں رقص میں ذرہ تپاں
سن لیا کشت خشک نے زمزمۂ سحاب کیا
چہرۂ شب دمک اٹھا سرخ شفق جھلک اٹھی
وقت طلوع کہہ گیا جانے آفتاب کیا
رندوں سے باز پرس کی پیر مغاں سے دل لگی
آج یہ محتسب نے بھی پی ہے کہیں شراب کیا
شمع تھی لاکھ ادھ جلی بزم میں روشنی تو تھی
ورنہ غم نشاط میں روشنی گلاب کیا
غیر کی رہگزر ہے یہ دوست کی رہگزر نہیں
کون اٹھائے گا تجھے دیکھ رہا ہے خواب کیا
مدتوں سے خلش جو تھی جیسے وہ کم سی ہو چلی
آج مرے سوال کا مل ہی گیا جواب کیا
ہاں تری منزل مراد دور بہت ہی دور ہے
پھر بھی ہر ایک موڑ پر دل میں یہ اضطراب کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.