ضرورت تھی کہ جو میداں میں نکلے سر بکف نکلے
ضرورت تھی کہ جو میداں میں نکلے سر بکف نکلے
مگر ہم ہیں کہ نکلے بھی تو لے کر چنگ و دف نکلے
ہمیں تھے انقلاب دہر کے پیغامبر اک دن
ہمیں اے وائے اب تیر ہلاکت کا ہدف نکلے
ہمیں ہیں اب حقائق سے جو کترا کر نکلتے ہیں
ہمیں تھے جو مصاف زندگی میں صف بہ صف نکلے
نہیں دریائے تہذیب نوی دریائے ظلمت ہے
عجب کیا ہے کہ بے گوہر ہو جو اس سے صدف نکلے
غضب کی تیرگی ہے رات دیکھیں کس طرح گزرے
عجب گم کردگی ہے راہ دیکھیں کس طرف نکلے
زمانہ ہے یزیدوں اور فرعونوں کا کیا کیجے
کہ جس سے کیجیے فریاد اسی کے منہ سے کف نکلے
کوئی ہے جو یہاں اس کربلا میں جان پر کھیلے
کوئی ہے جو یہاں اب صورت شاہ نجف نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.