ذہن جب تیرے تصور میں رواں ہوتا ہے
ذہن جب تیرے تصور میں رواں ہوتا ہے
تو بھی بولے تو سماعت پہ گراں ہوتا ہے
راز پنہاں تو بہرحال عیاں ہوتا ہے
لب جہاں ہلتے نہیں اشک رواں ہوتا ہے
اپنے ہونے کا جسے وہم و گماں ہوتا ہے
خود سے ملنے کا اسے وقت کہاں ہوتا ہے
لاکھ کوشش پہ بھی نکلا نہ سمانے والا
دل بھی کمبخت کوئی اندھا کنواں ہوتا ہے
ایک جنبش بھی جہاں وجہ ہلاکت ٹھہری
کوئی دیوانہ وہیں رقص کناں ہوتا ہے
عشق کے ساتھ نہ غم ہو تو اسے کیا کہیے
آگ کے ساتھ بہرحال دھواں ہوتا ہے
عزم پر عمر گذشتہ کی کوئی قید نہیں
جسم بوڑھا ہی سہی عزم جواں ہوتا ہے
تجھ کو سوچوں تو مری فکر غزل ہوتی ہے
اور جو دیکھوں تو احساس جواں ہوتا ہے
ہر عمل کا تو صلہ ہے اسی دنیا میں فہیمؔ
آدمی کو مگر احساس کہاں ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.