ذہن کے جب یہ دریچے کھلے تب یاد آئے
ذہن کے جب یہ دریچے کھلے تب یاد آئے
اپنی بربادی کے پھر ہم کو سبب یاد آئے
زندگی بجھ گئی اک قطرہ میسر نہ ہوا
تشنہ کاموں کے لب دریا وہ لب یاد آئے
رات خوابیدہ ہوئی چاند بھی روپوش ہوا
ہم اسے یاد بھی آئے ہیں تو کب یاد آئے
کیا ان ہاتھوں میں پھر آئے گا نظام عالم
آج کیا بات ہے شاہین عرب یاد آئے
کیوں خیالات میں یہ بات کبھی آئی نہیں
چھن گیا تخت تو پھر نام و نسب یاد آئے
ایک اک لمحہ قیامت سے نہیں کچھ کم تھا
آج کی رات وہ یاد آئے غضب یاد آئے
پھر ابھر آئے ملاقات کے وہ سارے نقوش
ان کی دیواروں کے جب ہم کو عقب یاد آئے
آسمانوں پہ گھٹاؤں کا جو اک دیکھا ہجوم
شادؔ میخانے کے وہ جام طرب یاد آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.