ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا
ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا
میں سمندر نہیں چاند کو علم ہے رات بھر پھر بھی مجھ کو بلاتا رہا
آنکھ میں خیمہ زن نیلگوں وسعتیں اپنا پہلا قدم ہی خلاؤں میں ہے
جو جفا کے جزیرہ نماؤں میں ہے دل کا اس خاک خستہ سے ناتا رہا
کج ادائی کی چادر سے منہ ڈھانپ کر سونے والا سر شام ہی سو گیا
خشک یادوں کے پتوں بھرے کھیت میں سانپ سا رات بھر سرسراتا رہا
دیر تک زرد آندھی سی چلتی رہی سانس بجھتی رہی شمع جلتی رہی
جاں پگھلتی رہی رات ڈھلتی رہی میں نہ روٹھا مگر وہ مناتا رہا
ان سنی سی صداؤں کے گھیرے میں تھا دیکھتے دیکھتے گھپ اندھیرے میں تھا
وہ مجھے پا کے دنیا کے بخشے ہوئے سب کے سب کھوٹے سکے چلاتا رہا
آزمائش میں ہے وہ گھڑی عید کی چاند نے جس کے آنے کی تائید کی
اک پھٹے پیرہن پر پسینے کی تہہ ایک گھر خوشبوؤں میں نہاتا رہا
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 366)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (Edition Nov. Dec. 1985,Issue No. 23)
- اشاعت : Edition Nov. Dec. 1985,Issue No. 23
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.