زیر زمیں اتر گئے یا سر آسماں گئے
زیر زمیں اتر گئے یا سر آسماں گئے
پیش روان راہ زیست کون کہے کہاں گئے
کوئی رہا نہ آس پاس اے دل دوست نا شناس
چھوڑ کے تجھ کو محو یاس سب ترے مہرباں گئے
عرصۂ آرزو میں تھیں یوں تو ہزار وسعتیں
تیرے قریب ہی رہے اہل وفا جہاں گئے
ہوش کے مرحلوں میں اک مرحلۂ جنوں بھی تھا
وادی وہم سے سبھی فکر کے کارواں گئے
جب بھی ہوائے دشت نے اہل جنوں کو دی صدا
موج شمیم گل کے ساتھ ہم بھی کشاں کشاں گئے
کیسے وہ لوگ تھے جنہیں بے خبری قبول تھی
ہم تو جنون آگہی لے کے گئے جہاں گئے
عہد جنوں کے مشغلے وقت نے سب بدل دیے
شوق کی لغزشیں گئیں ضبط کے امتحاں گئے
آخر کار خامشی ہی سے کھلے دلوں کے راز
حرف سخن زباں پہ جو آئے تھے رائیگاں گئے
ہوش کی جرأتیں تمام حد یقیں پہ رک گئیں
خلوت ناز تک تری صرف مرے گماں گئے
ذہن کی چوب خشک کو پھونک گئی سخن کی آنچ
دود نوا کے دائرے جانے کہاں کہاں گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.