زیست آغاز سے اتمام سفر ہونے تک
زیست آغاز سے اتمام سفر ہونے تک
اک معمہ ہی رہی عمر بسر ہونے تک
ہو نہ جائیں کہیں نیرنگیئ دل سے محروم
لوگ شائستۂ تہذیب نظر ہونے تک
جانے کتنے غم و آلام کا پیکر ہوگی
زندگی لائق تکمیل سفر ہونے تک
یہ بھی ہے دم سے ہمارے ہے وجود ہستی
اور ہم سلسلۂ شام و سحر ہونے تک
جانے کیا چاہئے اب دیر و حرم سے ہٹ کر
سجدۂ عشق کو آسودۂ در ہونے تک
یہ تو ہم جانتے ہیں ہم نہ رہیں گے اے دل
نظر لطف و کرم ان کی ادھر ہونے تک
سرد مہری کا یہی حال اگر ہے ساقی
دیکھیے کون جئے وا ترا در ہونے تک
راز سر بستہ رہے یوں کہ کسی پر نہ کھلے
جذبۂ ذوق طلب حسن نظر ہونے تک
ان کے وعدے کا یقیں ہو نہ ہو لیکن زمزمؔ
کیا خبر ہم نہ رہیں کل کی سحر ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.