زیست کے آثار رخصت ہیں محبت دل میں ہے
دلچسپ معلومات
ستمبر1932
زیست کے آثار رخصت ہیں محبت دل میں ہے
کارواں جاتا ہے میر کارواں منزل میں ہے
آؤ دم سینے میں باقی ہے نہ حسرت دل میں ہے
اب تو جو کچھ ہے وہ چشم منتظر کے تل میں ہے
ہاں ازل سے جو مقدر ہے وہی ہوگا مگر
جذبۂ تائید قدرت سعئ لا حاصل میں ہے
جاں ستاں ہے حسن کیا حسن طلب کی احتیاج
وہ تو زینت کے لئے خنجر کف قاتل میں ہے
جس کی منزل ہے بقا وہ جادہ پیمائے فنا
دل ادھر ناقص میں شامل ہے ادھر کامل میں ہے
تاب خلوت کون لا سکتا ہے دل تو مٹ چکا
کس قدر قاتل ترا جلوہ بھری محفل میں ہے
تو جسے چاہے حقیقت کہہ جسے چاہے مجاز
ایک صورت جو نظر میں ہے وہی تو دل میں ہے
التجا ناز آفرینی کے لئے ہے ورنہ سن
آرزو خود اس کی شاہد ہے کہ جلوہ دل میں ہے
یہ متاع زیست بھی ہوتی ہے مانیؔ نذر موت
اک نظر آنکھوں میں ہے اور ایک حسرت دل میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.