زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے
زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے
تو جو سورج ہے تو پھر سائے میں چلتا کیوں ہے
تو جو پتھر ہے تو پھر پلکوں پہ آنسو کیسے
تو سمندر ہے تو پھر آگ میں جلتا کیوں ہے
میرے چہرے میں جو شائستہ نظر آتا ہے
میری شریانوں میں وہ شخص ابلتا کیوں ہے
کل تمہیں نے اسے یہ پیالہ دیا تھا یارو
معترض کیوں ہو کہ وہ زہر اگلتا کیوں ہے
میری سانسوں میں سسکنے کی صدا آتی ہے
ایک مرگھٹ سا مرے سینے میں جلتا کیوں ہے
جانے کن ذروں سے اس خوں کی شناسائی ہے
پاؤں اس موڑ پہ ہی آ کے پھسلتا کیوں ہے
محفل لغو سے تہذیب نے کیا لینا ہے
ایسے شوریدہ سروں میں تو سنبھلتا کیوں ہے
- کتاب : Apne Ghar Tak Aa Pauhncha Hoon (Pg. 71)
- Author : Aslam Habib
- مطبع : Educational Publishing House, Delhi (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.