زیست کی ہر رہ گزر پر حشر برپا چاہئے
زیست کی ہر رہ گزر پر حشر برپا چاہئے
دل میں ہنگامہ نگاہوں میں تماشا چاہئے
آنسوؤں میں بھی ترا جلوہ ہویدا چاہئے
غم کے طوفانوں میں صرف اتنا سہارا چاہئے
شام غم دی ہے تو اک تاباں تصور دے مجھے
میں اندھیرا کیا کروں مجھ کو اجالا چاہئے
میری ہستی سے برسنے لگ گئی ہیں بجلیاں
اب ترے جلووں کے پردے پر بھی پردا چاہئے
بے نیازی آج سے کرتے ہیں ہم بھی اختیار
ان کے حربے کو انہیں پر آزمانا چاہئے
ساتھ ساتھ اس کو لئے پھرتی ہے کیوں تیری تلاش
دشت کی تنہائی میں دیوانہ تنہا چاہئے
دل پر اس ترتیب سے ہو بارش لطف و کرم
سر خوشی کا نقش گہرا غم کا حلقہ چاہئے
جذب ہو کر رہ گئی ہیں آشیاں میں بجلیاں
اب فلک کو اس کے ہی شعلوں سے پھونکا چاہئے
مست ہو سکتا ہے تو مخمورؔ لیکن اس طرح
آنکھ میں ساغر لب رنگیں میں صہبا چاہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.