ذکر وصال موت کا پیغام ہو گیا
ذکر وصال موت کا پیغام ہو گیا
ایسی خوشی ہوئی کہ مرا کام ہو گیا
میں مست چشم ساقیٔ گلفام ہو گیا
آنکھوں کا ڈورا ڈورا خط جام ہو گیا
شب تم کہیں رہے تمہیں کچھ کام ہو گیا
لو ہاتھ لاؤ کیوں ہمیں الہام ہو گیا
کنج لحد میں روئی مری بیکسی مجھے
مٹیا محل کے گوشے میں کہرام ہو گیا
کوٹھی پہ تم چڑھے جو سر شام بے نقاب
غیرت سے آفتاب لب بام ہو گیا
بے وجہ سرخیٔ لب قاتل غلط غلط
عیسیٰ شہید لذت دشنام ہو گیا
ہم ابتدائے عمر میں اس بت پہ مر مٹے
آغاز ہی میں خیر سے انجام ہو گیا
چھالے ہیں تیغ یار میں بسمل ہے سخت جان
سل ہو گئی اسے اسے سرسام ہو گیا
ہے یہ نمک کا پاس کہ کہتے ہیں میرے زخم
بھر پایا ہم نے سب ہمیں آرام ہو گیا
اللہ رے یہ قدر بکا کوڑیوں کے مول
تیرا شہید حوروں میں نیلام ہو گیا
پیری میں شوق دید بتاں ہو گیا حرام
تار نگاہ جامۂ احرام ہو گیا
فرماں بری نے دعوے خدائی کے کھو دئے
اللہ تیری شان وہ بت رام ہو گیا
بھڑکا دیا ہے سوز دروں چشم زار نے
آنکھوں کا تیل روغن بادام ہو گیا
میری طرح ہے طائر رنگ حنا اسیر
صیاد تیرے ہاتھ کا خط دام ہو گیا
رکھ لی خدا نے خنجر قاتل سے آبرو
راسخؔ بلا سے جان گئی نام ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.