ذکر کیوں کرتے ہو اس کا وہ مرا کچھ بھی نہیں
ذکر کیوں کرتے ہو اس کا وہ مرا کچھ بھی نہیں
میں نے سب کچھ دے دیا اس کو بچا کچھ بھی نہیں
اس کی زلفوں کی سیاہی سے ہوا دن بھی سیاہ
اس کی زلفوں کے تو آگے یہ گھٹا کچھ بھی نہیں
اس کو جو کہنا تھا میرے روبرو کہتا رہا
بس میں سنتا ہی رہا میں نے کہا کچھ بھی نہیں
اس کے پیروں کی نزاکت پر ہیں جان و دل نثار
اس کی آنکھوں کے اشارے سے بچا کچھ بھی نہیں
غمزہ و ناز و ادا پر ہو گیا اس کے نثار
اس کا ماضی تھا مگر کیسا پتہ کچھ بھی نہیں
اس سے میں شکوہ نہیں کرتا کسی بھی بات پر
ایک پتھر ہے اثر اس پر ہوا کچھ بھی نہیں
اس کو جانا تھا جہاں اٹھ کر یہاں سے چل دیا
وہ اکیلا ہی گیا اس کو ملا کچھ بھی نہیں
وہ محبت کیا ہے ہے اس سے ابھی ناآشنا
ایسی بیماری ہے یہ جس کی دوا کچھ بھی نہیں
جس کو دیکھو وہ سمجھتا ہے مجھے ہی بے وفا
بے وفاؤں کو مگر ملتی سزا کچھ بھی نہیں
دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے تم کو دیکھ کر
میں نے تو تم سے کبھی ایسا سنا کچھ بھی نہیں
اس بھری دنیا میں ساحلؔ نے ابھی دیکھا ہے کیا
بے وفا ہے کون اسے اس کا پتہ کچھ بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.