ظلام فکر سے اہل نظر نکل آئے
صدف سے جس طرح کوئی گہر نکل آئے
مزاج شہر میں کس نے یہ زہر گھولا ہے
کہ بات بات پہ تیغ و تبر نکل آئے
کوئی رقیب تو کوئی عزیز جاں ٹھہرا
دیار عشق میں عیب و ہنر نکل آئے
بھٹک رہے ہیں بہت ہم سراب ہستی میں
دعا کرو کہ کوئی رہگزر نکل آئے
چہار سمت اندھیرے ہیں دل فسردہ ہے
کہیں تو ابر سیہ سے قمر نکل آئے
غلام ہانپتے پھرتے ہیں مستقر ہی نہیں
نظام زر میں سفر در سفر نکل آئے
لہو سے مقتل الفت میں رنگ بھر دیں گے
ہمارے نام کا قرعہ اگر نکل آئے
یہ کیا کہ جب بھی سمندر میں ناؤ ڈالی ہے
تو موج موج میں ہر سو بھنور نکل آئے
دیار عقل میں بونوں کی بھیڑ ہے ہر سو
خدا کرے کہ کوئی معتبر نکل آئے
ترے شعور سے ایسے چمک اٹھے دنیا
وجود سنگ سے جیسے شرر نکل آئے
حصار ظلم سے نکلیں گے اس طرح راہیؔ
شب سیاہ سے جیسے سحر نکل آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.