زندانی زنجیر کو گھورتا رہتا ہے
زندانی زنجیر کو گھورتا رہتا ہے
کڑیوں کو شہتیر کو گھورتا رہتا ہے
ہوتا کب ہے ایسا سخن مقدر میں
دل بھی حضرت میرؔ کو گھورتا رہتا ہے
تھک جاتا ہے پہلے تو خط پڑھ پڑھ کے
قیدی پھر تحریر کو گھورتا رہتا ہے
عادت سے مجبور تھا بعد از مرگ بھی وہ
منکر اور نکیر کو گھورتا رہتا ہے
ایک شناسا شکل کی خاطر برسوں سے
رستہ ہر راہگیر کو گھورتا رہتا ہے
لیکن ہم تقدیر کے آگے بے بس ہیں
ناخن ہر تدبیر کو گھورتا رہتا ہے
شام سویرے سوتے جاگتے برسوں سے
صبح و شام ضمیر کو گھورتا رہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.