زندگانی ہے مری تیری نظر ہونے تک
زندگانی ہے مری تیری نظر ہونے تک
روشنی شمع کی ہے نور سحر ہونے تک
عمر دو روزہ پر اور مال پہ بے جا ہے غرور
دیر لگتی ہے کہاں خاک بشر ہونے تک
آ ہی جائیں نہ کہیں باد خزاں کے جھونکے
وقت درکار ہے پھولوں کو ثمر ہونے تک
سانس کی آمد و شد ہے نہ دوامی ہرگز
اس کی رفتار بھی ہے درد جگر ہونے تک
ذرے ذرے میں بدل جائیں گے یہ شمس و قمر
ذرے ذرے بھی تو ہیں شمس و قمر ہونے تک
دوش اور پشت کی زینت ہے جو زلف پیچاں
ہے پریشان بہت زیب کمر ہونے تک
آگ ہے دل میں لگی سینہ بنا ہے بھٹی
راکھ ہو جاؤں گا میں دیدۂ تر ہونے تک
شکل انساں میں ہر انسان کہاں ہے انساں
آدمیت کا شرف تو ہے بشر ہونے تک
نا توانوں کو بھی کمزور نہ جانو ہرگز
پانی پانی ہے فقط برق و شرر ہونے تک
ایک فعال حرارت کی ضرورت بھی تو ہے
خاک نمناک کو خشت اور حجر ہونے تک
موت کہتے ہیں جسے ہے وہ حیات ابدی
موت ہے لازم و ملزوم امر ہونے تک
جان بھی جان ہے جب تک ہے بدن کے اندر
جسم ہے جسم حسیں نوع دیگر ہونے تک
ہاتھ اب کھینچ ہی لو آہ و فغاں سے ارشدؔ
کیا نہ مر جاؤ گے تم ان میں اثر ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.