زندگی اب تیری بے مصرف ہے گھر کو چھوڑ دے
زندگی اب تیری بے مصرف ہے گھر کو چھوڑ دے
خشک پتا جس طرح اپنے شجر کو چھوڑ دے
خواہشوں کے پر خطر جنگل میں آوارہ نہ گھوم
دور منزل سے جو کر دے اس ڈگر کو چھوڑ دے
دائروں کے اس سفر کی انتہا کوئی نہیں
لوٹ محور کی طرف ایسے سفر کو چھوڑ دے
کیوں نہ سیارے بھی الٹی چال ہی چلنے لگیں
آدمی جب آدمیت کی ڈگر کو چھوڑ دے
ہے فقیہ شہر کی خود قاتلوں سے ساز باز
ڈھونڈ مت انصاف اس سے اس کے در کو چھوڑ دے
بن گئے ہیں پاؤں کی زنجیر تیرے بام و در
ذوق منزل ہے تو اپنے بام و در کو چھوڑ دے
ٹوٹتا ہے جب کوئی رشتہ تو بھر آتا ہے دل
پھر بھی آنسو پونچھ نخل بے ثمر کو چھوڑ دے
تیرے آنچل کی ہوا اس کے مقدر میں کہاں
غم سے گھبرا کر جو تیری رہ گزر کو چھوڑ دے
اس نے سیکھا بھی تو کیا سیکھا زمانے سے شبابؔ
دوسرے کے عیب جو لے لے ہنر کو چھوڑ دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.