زندگی اپنی یہاں اپنے لئے تعزیر ہے
زندگی اپنی یہاں اپنے لئے تعزیر ہے
شوق دل میں رقص کا اور پاؤں میں زنجیر ہے
تیشۂ جمہوریت ہے اہل زر کے ہاتھ میں
جوئے خوں کو وہ بتاتے ہیں کہ جوئے شیر ہے
گردش ایام کو اب گردش انساں کہیں
کرتے رہنا ہجرتیں انسان کی تقدیر ہے
جان دی کتنے ستاروں نے اسی امید پر
صبح کے ہونے میں آخر کس لئے تاخیر ہے
جگمگاتے قصر کے نیچے اندھیرے جھونپڑے
یہ ہزاروں سال کی تہذیب کی تصویر ہے
خوں بہا میرا مرے قاتل کو ملتا ہے یہاں
بن گئی انصاف کی میزان بھی شمشیر ہے
ہوں کھڑے سونے کی اینٹوں پر رسائی کے لئے
ہاتھ سے اونچی بہت اب عدل کی زنجیر ہے
بن چکیں تاریکیاں اپنا مقدر اس طرح
ایک جگنو کی چمک بھی خواب کی تعبیر ہے
اپنا حق اپنی زباں پر بھی نہیں باقی رہا
خواب آزادی کی اپنے کیا یہی تعبیر ہے
چونک پڑتا ہوں میں ہر آہٹ پہ کیسے خوف سے
آ رہا قاتل مرا یا جا رہا رہ گیر ہے
بھوک بیماری جہالت میں مقید آدمی
زندگی کیا ہے کوئی بگڑی ہوئی تصویر ہے
آدمی ہے پیکر مہر و وفا امن و اماں
ہر گلی کوچے میں لیکن چل رہی شمشیر ہے
جابر و آمر بدل پائے زمانہ کب یہاں
عام انسانوں سے بنتی وقت کی تقدیر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.