زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی
زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی
ایک تنویر حیات آج ابھرنے سے رہی
میں پیمبر نہیں انساں ہوں خطا کار انساں
عرش سے کوئی وحی مجھ پر اترنے سے رہی
میں نے کر رکھا ہے محصور چمن کی حد تک
شاخ در شاخ کوئی برق گزرنے سے رہی
لاکھ افکار و حوادث مجھے روندیں بڑھ کر
جو وفا مجھ کو ملی ہے کبھی مرنے سے رہی
آدمی کتنے ہیولے ہی بنا کر رکھے
موت پھر موت ہے جب آئی تو ڈرنے سے رہی
آخری وقت ہے مختل ہوئے جاتے ہیں حواس
ایسے میں میری خودی کام تو کرنے سے رہی
گھیر رکھا ہے ہر اک سمت سے طوفانوں نے
میری کشتی تو کبھی پار اترنے سے رہی
صادقؔ اس موڑ پہ لے آتے ہیں حالات ہمیں
موج احساس ذرا آج ٹھہرنے سے رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.