زندگی کے شہر میں جب جب گھنا سایہ ہوا
زندگی کے شہر میں جب جب گھنا سایہ ہوا
بے کراں غم کا سمندر اور بھی گہرا ہوا
عصر نو کی آدمیت کا ہے بس یہ تجزیہ
ایک شیشہ ہے زمیں پر ٹوٹ کر بکھرا ہوا
حادثوں کا لفظ مہمل ہو گیا ہے آج کل
ایک عالم ہے صلیب و دار پر لٹکا ہوا
اب کسی کردار پر انگلی اٹھانا ہے محال
ہر بشر اس دور میں ہے دودھ کا دھویا ہوا
آ گیا ہے کون میرے درد کی دہلیز پر
دل کے دروازے پہ کس کی یاد کا کھٹکا ہوا
پڑھ رہا ہے آج کل وہ داستان زندگی
پھر رہا ہے اس لئے ہر سمت گھبرایا ہوا
کھو گیا بیتاب کیفیؔ گمرہی کے دشت میں
قافلہ اکثر نشان راہ سے بھٹکا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.