زندگی کی شام ہے اذن سفر ہونے کو ہے
زندگی کی شام ہے اذن سفر ہونے کو ہے
اک مسافر وہ ہوں جو کہ در بدر ہونے کو ہے
داغدار اس دل کو لے کر ہم کہاں اب جائیں گے
فتنہ گر وہ شہر بھر میں جلوہ گر ہونے کو ہے
جو ہماری جان تھے ہونے لگے ہیں اجنبی
کیسا کیسا زخم کاری روح پر ہونے کو ہے
اے شب غم تو بتا ان حسرتوں سے کیا کہیں
بچ رہی ہیں چند سانسیں اور سحر ہونے کو ہے
اک بلا کے بعد پھر سے اک بلا آتی رہی
لازمی اک ضرب ہم پر کارگر ہونے کو ہے
داستان غم سنا کر وہ تو اٹھ کر چل دئے
پھر سے ہم پر غم کی بارش تازہ تر ہونے کو ہے
ہیں مری آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر جان ہے
زندگی اے زندگی تو مختصر ہونے کو ہے
جو کہ مانگی تھیں دعائیں کھو گئیں جانے کہاں
کچھ ہے گھبراہٹ کہ یہ سب بے اثر ہونے کو ہے
ان کا آنا تھا کہ سارے بام و در سجنے لگے
خوش نما اس شہر کی ہر رہ گزر ہونے کو ہے
بس نظر کی بات تھی جو ہم کو گھائل کر گئی
قتل گاہ عشق کی ہم پر نظر ہونے کو ہے
کچھ تو ایسی بات ہے وہ بام پر آنے لگے
کس پہ مائل آج کل بیداد گر ہونے کو ہے
ہم نے برہمؔ دیکھ لی یہ زندگی وہ زندگی
دیکھتے ہی دیکھتے خون جگر ہونے کو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.