زندگی کو اک مسلسل امتحاں کہتے رہے
زندگی کو اک مسلسل امتحاں کہتے رہے
لغزش پا کو ہی منزل کا نشاں کہتے رہے
مصلحت تھی یا کہ تھی وہ عشق کی مجبوریاں
اس بت نا مہرباں کو مہرباں کہتے رہے
چپکے چپکے کہہ گئی جو داستاں کو داستاں
اس نگاہ شوق کو ہم بے زباں کہتے رہے
اک تبسم اک نگہ اور ایک قطرہ اشک کا
بس انہیں پر کہنے والے داستاں کہتے رہے
زرد پتے خشک کلیاں پھول مرجھائے ہوئے
یہ ہیں عکس قلب ویراں ہم خزاں کہتے رہے
اپنے ہی ذوق نظر نے بخشی ان کو دلبری
ورنہ کیا ہے جس کو ہم حسن بتاں کہتے رہے
گوشۂ دل میں وہ میرے سب سمٹ کر رہ گیا
غم کا اک طوفاں جسے اہل جہاں کہتے رہے
جلوہ گر رگ رگ میں ہے اور دیدہ و دل میں نہاں
ہم جسے خلوت نشین لا مکاں کہتے رہے
پیار کے لمحے جو ان کی بزم میں گزرے حبیبؔ
ہم حیات خضر پر ان کو گراں کہتے رہے
- کتاب : نغمۂ زندگی (Pg. 22)
- Author : جے کرشن چودھری حبیب
- مطبع : جے کرشن چودھری حبیب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.