زندگی مانگے ہے خوابوں کے خریدار بہت
زندگی مانگے ہے خوابوں کے خریدار بہت
راہ روکے ہے مگر وقت کی دیوار بہت
تازہ رستے ہوئے زخموں کے کنول مہکاؤ
گلشن زیست میں آئے ہیں خریدار بہت
چند پیسوں کے لئے جن کے قلم بکتے ہیں
تم کو مل جائیں گے ہوٹل میں وہ فن کار بہت
گھول دو جام میں مخمور نگاہوں کا نشہ
یاد ماضی سے ہے بے چین یہ مے خوار بہت
تازہ پھولوں کو مری میز پہ رکھنے والے
یاد آئے گا مہکتا ہوا یہ پیار بہت
ایک تم ہوتے تو جینے کی تمنا ہوتی
یوں تو ہر گام پہ ملتے رہے مے خوار بہت
ایک فرسودہ روایت کے سوا کچھ بھی نہیں
پیار کے نام پہ سجتے ہیں جو بازار بہت
اس کا میٹھا وہ ترنم وہ غزل صادقؔ کی
یاد آتا ہے وہ تنہائی میں دل دار بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.