زندگی شام کو دفتر سے نکل آتی ہے
اور اداسی مرے اندر سے نکل آتی ہے
چادریں جتنی بھی تبدیل کروں تیرے بعد
تیری خوشبو مرے بستر سے نکل آتی ہے
میں ہوں وہ آگ کہ جس آگ کو چکھنے کے لیے
جل پری چل کے سمندر سے نکل آتی ہے
جس قدر آپ بتاتے ہیں مجھے صحرا میں
اتنی ویرانی مرے گھر سے نکل آتی ہے
جب بھی ہوتی ہے چراغوں سے ملاقات مری
لہلہا کر مری لو سر سے نکل آتی ہے
حضرت حر نے نکل کر یہ دکھایا ہم کو
روشنی رات کے لشکر سے نکل آتی ہے
شام کے وقت سمندر میں لہو گھلتے ہی
تیری صورت مرے ساغر سے نکل آتی ہے
کہاں دبتی ہے دبانے سے محبت ارمانؔ
یہ وہ کونپل ہے جو پتھر سے نکل آتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.