ضیائے حسن جاناں جاگزیں معلوم ہوتی ہے
ضیائے حسن جاناں جاگزیں معلوم ہوتی ہے
بیاض چشم دل عرش بریں معلوم ہوتی ہے
تری صورت بھی کیسی دل نشیں معلوم ہوتی ہے
کہ جس دل میں اسے ڈھونڈو وہیں معلوم ہوتی ہے
اثر اس درجہ کر رکھا ہے خوف ہجر نے دل پر
کہ ان کی ہاں بھی اب مجھ کو نہیں معلوم ہوتی ہے
ادھر آنکھیں ملیں ان سے مسخر تھا ادھر عاشق
نگاہ دل ربا سحر آفریں معلوم ہوتی ہے
بہار آئی ہے یا فصل جنوں آئی ہے گلشن میں
اک اک گل کی قبا بے آستیں معلوم ہوتی ہے
نہ نکلی ہے نہ اب نکلے گی میرے خانۂ دل سے
اک اک حسرت مری خلوت نشیں معلوم ہوتی ہے
کچھ ایسا ہو گیا چشم کحیل یار کا سودا
کہ نرگس بھی مجھے اب سرمگیں معلوم ہوتی ہے
گھلایا مجھ کو رفتہ رفتہ یار زلف برہم نے
محبت اس کی مار آستیں معلوم ہوتی ہے
کٹے ہم خوف سے بل ان کی پیشانی پہ کیا آیا
کوئی شمشیر وہ چیں بر جبیں معلوم ہوتی ہے
تری شیریں کلامی کا وہ دل کو شوق ہے ساقی
شراب تلخ بھی اب انگبیں معلوم ہوتی ہے
نگاہ آرزو پر بھی اثر ہے یاس کا اتنا
کہ سر تا پا نگاہ واپسیں معلوم ہوتی ہے
جہاں بال آ گیا اس میں کہاں پھر خیر شیشے کی
تمہاری زلف دل میں جاگزیں معلوم ہوتی ہے
کیا ہے اس قدر گم مجھ کو ذوق جبہ سائی نے
شبیہ پا مجھے نقش جبیں معلوم ہوتی ہے
گزر کر میکدے سے چشمۂ کوثر پہ جا پہنچی
نظر شیخ حرم کی دور میں معلوم ہوتی ہے
طبیبؔ اپنی غزل ہے یا کوئی پھولا پھلا گلشن
بڑی سیراب شعروں کی زمیں معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.