زعم ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے
زعم ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے
اور بدن طرۂ پیچاک سے باندھا گیا ہے
ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے
یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے
عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے
اور پھر گردش افلاک سے باندھا گیا ہے
خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے
ایک رشتہ جو مرا خاک سے باندھا گیا ہے
ٹوٹے پڑتے ہیں تماشے کو یہاں پر نخچیر
آج صیاد کو فتراک سے باندھا گیا ہے
کشت وحشت ہو جسے دیکھنی آئے دیکھے
ہر بگولہ خس و خاشاک سے باندھا گیا ہے
پھر وہی حرف تمنا ہے وہی ساعت درد
پھر ہمیں دیدۂ نمناک سے باندھا گیا ہے
اب کسی کوزہ گری کی نہیں حاجت کہ مجھے
تا فنا ایک اسی چاک سے باندھا گیا ہے
ہم گنہ گاروں کی ہے آخری امید وہی
عہد اک جو شہ لولاک سے باندھا گیا ہے
کجا یہ شوخ ادا دنیا کجا میں عرفانؔ
مرد سادہ زن بے باک سے باندھا گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.