ظہور میرا ازل سے ہے ارتقا بن کر
اسی طرح سے میں قائم ہوں سلسلہ بن کر
زمیں پہ کتنے سمندر مری تلاش میں تھے
میں آسمان پہ اڑتا رہا گھٹا بن کر
سوائے میرے نہ تھا کوئی جو مجھے سنتا
تمام دشت میں گونجا ہوں میں صدا بن کر
مرے وجود کے اندر ہی ساری دنیا تھی
میں دیکھتا رہا دنیا کو آئنہ بن کر
نہ کوئی سمت ہے میرے لیے نہ منزل ہے
کہ ابتدا سے چلا ہوں میں انتہا بن کر
ہر ایک چیز جو دیکھی حیات سے عاری
میں چھا گیا رخ مہتاب پر فضا بن کر
کبھی جو دشت نوردی سے وقت ملتا ہے
گلوں کو چومتا پھرتا ہوں میں صبا بن کر
نگاہ ملتے ہی شرما کے رہ گیا کوئی
چھپا ہوا تھا میں آنکھوں میں مدعا بن کر
وہ رات جس میں دھڑکتے رہے ہیں ہم دونوں
وہ رات کاش پھر آ جائے حادثہ بن کر
ہزار آگ کے دریاؤں سے گزرنا ہے
اثرؔ حیات ملی بھی تو مرحلہ بن کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.