زلف اس کی مری زنار ہوئی جاتی ہے
بے خودی اور مزے دار ہوئی جاتی ہے
پڑ گئے چشم ستم گر کے شرارے ہم پر
تاب زخموں کی پر اسرار ہوئی جاتی ہے
شکر ہے ہم کو محبت نے بچائے رکھا
ورنہ یہ دنیا تو بیمار ہوئی جاتی ہے
وحشتوں ہی کی کشاکش کا کرشمہ ہے یہ
روح مٹی کی بھی بیدار ہوئی جاتی ہے
آبلوں نے جو اڑائی ہے ہنسی ظالم کی
دشت کی خاک بھی گلزار ہوئی جاتی ہے
آج پھر اس کی تمناؤں نے آنکھیں کھولیں
آج ویرانی چمن زار ہوئی جاتی ہے
اس ادا سے وہ اتر آیا مری دھڑکن میں
زندگی اپنی طرحدار ہوئی جاتی ہے
عشق نے ایسی بلندی کی اوڑھائی چادر
اب محبت مرا کردار ہوئی جاتی ہے
آہ کی بدلی برستی ہے سر شام ندیمؔ
رات احساس سے سرشار ہوئی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.