ظلمت غم سے نہ شب کی تیرگی سے خوف کھا
ظلمت غم سے نہ شب کی تیرگی سے خوف کھا
دوست بن کر جو ڈسے اس روشنی سے خوف کھا
حرمت اسلاف ہے اس بند مٹھی کی اساس
اپنی رسوائی سے ڈر دست تہی سے خوف کھا
آج کل دو دھار کی تلوار ہیں الفاظ بھی
جادوئی لہجے کی حملہ آوری سے خوف کھا
سازشوں نے رخ پہ ڈالے ہیں بہت دل کش نقاب
وقت کی معصوم صورت سادگی سے خوف کھا
تو مری بربادیوں پر کس لیے ہے مطمئن
مشتعل کب ہو مری دیوانگی سے خوف کھا
بغض فطرت آنکھ میں تیرا کھٹکتا ہے وجود
مصلحت آمیز کینہ پروری سے خوف کھا
تجھ کو تیری گمرہی دنیا سے اوجھل کر نہ دے
بکھری بکھری اب تو اپنی بے حسی سے خوف کھا
تیرے لہجے میں سمٹ آئی ہے کڑواہٹ بہت
زہر جو بن جائے ایسی شاعری سے خوف کھا
تنگ دل کوئی اگر فیاض ہو جائے تو ڈر
اے ظفرؔ کم ظرف کی دریا دلی سے خوف کھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.