ہر اک قدم پہ اس لیے گھبرا رہا ہے دل
ہر اک قدم پہ اس لیے گھبرا رہا ہے دل
میں ہوں گناہ گار سزا پا رہا ہے دل
یہ در بدر ہی ٹھوکریں کھاتا رہا سدا
کیا گزری اس پہ عشق میں بتلا رہا ہے دل
انسانیت کا دور بھی اب تو رہا نہیں
سو دشمنوں کے بیچ خوشی پا رہا ہے دل
آنکھوں میں مفلسوں کی جو منظر ہیں خوف کے
یوں زندگی سے اب مرا اکتا رہا ہے دل
کیوں آدمی ہی آدمی کو قتل کر رہا
یہ سوچ سوچ کر مرا گھبرا رہا ہے دل
سوچا تھا تجھ کو بھول کے مل جائے گا قرار
اب تو اسی خیال سے پچھتا رہا ہے دل
گلشن میں پھول آج بھی اک ساتھ کھل رہے
انساں کی دشمنی سے پھٹا جا رہا ہے دل
یہ حسن اور عشق کی باتیں تو سب کریں
الفت سے تھک کے یار یہ سستا رہا ہے دل
اک رات چاند چھونے کی دل میں خلش ہوئی
یہ خواب اک فریب ہے سمجھا رہا ہے دل
چھت پر جو آ کے اس نے بھی زلفیں ہیں کھول دیں
آتشؔ فلک پہ چاند کا شرما رہا ہے دل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.