اندر جالی منتر پھونکا عقل کے ظلمت خانوں پر
اندر جالی منتر پھونکا عقل کے ظلمت خانوں پر
اور صوامت گھول کے مارے دل کے روشن دانوں پر
بھوج پتر کی چاروں دشائیں ہردے کے وپریت ملیں
گنگا جل بھی فیل ہوا ہے کانا کی سنتانوں پر
عشق کے ہم آسیب زدہ ہیں اور ایسے آسیب زدہ
عامل بابا چھوڑ سکے نہ کوئی اثر دیوانوں پر
عشق میں ہم بس کانا جی کو اپنا مرشد مانتے ہیں
اپنا اک اک چھند ہے بھاری قیس کے سب افسانوں پر
یوںہی امر کب ٹھہریں ہیں وہ عشق نے ہی احسان کیا
سنت روی کی کٹیا پر اور میراؔ کے ایوانوں پر
عشق امر ہے عشق امر ہے عشق امر ہے عشق امر
یہی لکھا تھا صدیوں پہلے چندر گپت کے لاٹوں پر
گنگا کے اس پار درشیہ کتنا سندر ہوتا ہے
عشق کا سورج نکلے ہے جب زلفیں ڈالے شانوں پر
بھنگ کی تہمت تلسی جی کے دوہوں تک محدود نہیں
کچھ نے غزل کو مدرا تھامے دیکھا ہے مے خانوں پر
عشق کو تابع کرنے میں جو باون چوبی بھول گئے
رودراکش کی مالا پہنے بیٹھے ہیں استھانوں پر
بچھڑا ساتھی مل جاتا ہے دھیرج راکھو خانہ بدوشؔ
قشقہ کھینچو عشق جپو بس تسبیحات کے دانوں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.