مت پوچھئے کہ کیسے سفر کاٹ رہے ہیں
مت پوچھئے کہ کیسے سفر کاٹ رہے ہیں
ہر سانس اک سزا ہے مگر کاٹ رہے ہیں
خاموش آسمان کے سائے میں ہر اک بار
ہم اپنی حسرتوں کے ہی سر کاٹ رہے ہیں
کمزور چھت سے آج بھی ایک اینٹ گری ہے
کچھ لوگ ہیں کہ پھر بھی غدر کاٹ رہے ہیں
آدھی تو جیبھ اپنے ہی دانتوں نے کتر لی
باقی بچی کو مون ادھر کاٹ رہے ہیں
دیکھے ہیں جب سے اوروں کے بہتے ہوئے آنسو
ہم اپنے آنسوؤں کی خبر کاٹ رہے ہیں
ہر گاؤں پوچھتا ہے مسافر سے یہی بات
کیا تم کو بھی تمہارے نگر کاٹ رہے ہیں
اب زہر بن گیا ہے نیا دوست ہمارا
ہم اپنے منتر کا ہی اثر کاٹ رہے ہیں
کیسے بہیلیے ہیں کہ جو آخری دم تک
ہم کو اڑا رہے ہیں نہ پر کاٹ رہے ہیں
- کتاب : Aandhiyo Dheere Chalo (Pg. 87)
- Author : Kunwar Bechain
- مطبع : Vani Prakashan (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.