مشکلیں تھم گئیں درد کم ہو گیا
مشکلیں تھم گئیں درد کم ہو گیا
اب زمانے کا غم اپنا غم ہو گیا
راستے نے مسافر سے کیا کہہ دیا
انقلاب سفر ہر قدم ہو گیا
جب کٹے ہاتھ بھی لے کے پرچم اڑے
تک ستم گر نے سمجھا ستم ہو گیا
جس قلم نے لکھا انقلاباً الف
وہ قلم سر نہ تھا سر قلم ہو گیا
روشنی اب اندھیرے کی ہم راز ہے
جو نہ ہوتا تھا وہ ایک دم ہو گیا
ذہن سے زیست تک سرخ رو تھا مگر
خواب آنکھوں میں اترا تو نم ہو گیا
وقت تو آسماں کو جھکا دیتا ہے
سر تو سر ہی ہے تھوڑا سا خم ہو گیا
میرے بعد آنے والوں سے کہنا شلبھؔ
ایک بیگانہ دنیا میں کم ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.