بانی: نو آدمیوں کا آدمی
بانی کے بارے میں میرے خاکۂ جولیس سیزر کی نعش کے آگے مارک انطونیؔ کی اس تقریر کی طرح نہ لیا جائے جس میں ہر تھوڑی دیر بعد یہ جملہ آتا ہے :
YET BRUTUS IS AN HONOURABLE MAN
ً
بانی کو میں نے جس طرح اور جس حد تک دیکھا، پایا اور سنا ہے وہ سب کچھ اس خاکے میں ہے۔
ایک بانی وہ جو بانی ہے، دوسرا بانی وہ جو منچندہؔ ہے۔
بانی جس کے مکمل ’’میں‘‘ میں پوری نو شخصیتیں بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک بانی وہ جو آپ اپنا تذبذب اور خود اپنا فیصل ہے (یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ بانی نے اپنے مجموعۂ کلام کے آخر میں ’’میرا مکمل میں‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے ’’میں‘‘ میں نو شخصیتوں کو یوں شامل کیا ہے جیسے اکبر نے اپنے درباریوں میں نورتنوں کو جمع کیا تھا۔ مگر اب زمانہ جمہوریت کا آگیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نورتن بانی کے دربار کے ہیں یا بانی ہی ان نورتنوں کے دربار کے واحد رتن ہیں)
بانی جو ایک روبہ زوال زبان میں ترقی کر رہا ہے۔
بانی جو دو چھڑیوں کے سہارے کے بغیر چند قدم نہیں چل سکتا اور بانی جسے اندھی اڑانوں کا شوق ہے۔
بانی جو دوسروں کی زبانی اپنی تعریف سن کر مطمئن نہیں ہوجاتا بلکہ خود اپنی تعریف کر کے خوش ہوتا ہے ؎
نظر میں، آئینہ میں، سماعت میں، صدا میں
بانی جو زندگی سے لڑتا ہے، بانی جو زندگی سے سمجھوتہ کرتا ہے۔
بانی جو پھیلنے پر آئے تو اپنے مخلص دوست راج نارائن رازؔ کے نام کا آسان فارسی ترجمہ ’’دم گفتگو صد سخن معتبر راز‘‘ کر ڈالے اور بانی جو سمٹنے پر آئے تو خود اپنا ترجمہ یوں کرے ؎
کبھی ایک پل بھی نہ سانس لی کھل کے ہم نے بانی
رہا عمر بھر بس کہ جسم و جاں میں عذاب سا کچھ
بانی جسے ادب میں مقام مل چکا ہے۔ بانی جسے ادب میں مقام چاہیے۔
بانی جو زندگی کے حساب کے معاملہ میں اپنے مہاجنی خدوخال کے باوجود کچا ہے مگر رنگوں کا حساب ضرور مانگتا ہے۔
بانی جو دوستوں پر مر مٹتا ہے۔ بانی جو دوستوں سے نفرت کرتا ہے۔
یہ قصہ اسی بانی کا ہے اور میں اس قصہ کو ذرا پہلے سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔
دس گیارہ سال ادھر کی بات ہے۔ میرے اور بانی کی مشترک دوست کیلاشؔ ماہر کسی سرکاری کام کی آڑ میں حیدر آباد آئے اور تین چار مہینے تک وہیں کے ہو رہے ان کا ایک ناپسندیدہ معمول یہ تھا کہ مجھ سے ہر روز ملتے تھے۔ دوسرا ناپسندیدہ معمول یہ تھا کہ ہر شام شراب پیتے تھے۔ تیسرا معمول یہ ہوا کرتا تھا کہ جیسے ہی دو پیگ پی لیتے انہیں اچانک بانی کی نہیں بلکہ ’’بانی ایم اے‘‘ کی یاد آجاتی تھی اور کہتے ’’بھئی لو تمہیں بانی۔ ایم۔ اے کے کچھ شعر سنائیں تم بھی کیا یاد کروگے۔‘‘ چوتھے پیگ تک وہ لگاتار بانی کے شعر سنایا کرتے تھے اور ان شعروں پر اپنا ہی سر کچھ اس زور سے دھنتے تھے کہ بار کے بیرے تک بانی کے شعروں کے وسیلے سے ان میں دلچسپی لینے لگتے تھے۔ چوتھے پیگ کے بعد ان میں کچھ ایسی دیدہ دلیری پیدا ہوجاتی تھی کہ اپنے شعر سنانے پر اتر آتے تھے۔ یہ افراتفری پانچویں پیگ تک باقی رہتی تھی۔ اس کے بعد ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں والا معاملہ درپیش آتا تھا کیونکہ اس کے بعد وہ میرؔ، غالب، مومنؔ، ذوقؔ، اور نہ جانے کن کن شعرا کے اشعار سنانے لگتے تھے۔ میں ان کے پانچویں پیگ والے شعروں پر دار دیتا تو نہایت مودبانہ انداز میں سلام کر کے داد وصول کر لیا کرتے تھے۔ پھر فلیش بیک کے طور پر انہیں اچانک بانی کی یاد آجاتی تھی اور وہ چلا کر کہتے ’’بانی ہائے بانی‘‘ چونکہ اس نعرہ میں ایم۔ اے شامل نہیں ہوتا تھا اس لیے بار کے بیرے ’’بانی‘‘ کے گلاس لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ہر شام کا ڈر اب سین یہی ہوتا تھا۔
البتہ ان کا آخری معمول یہ ہوتا تھا کہ بچھڑنے سے پہلے مجھ سے ضرور پوچھتے ’’کیا تم نے بانی ایم اے کو پڑھا ہے؟‘‘ اور میں کہتا ’’نہ میں نے بانی کو پڑھا ہے اور نہ ایم اے تک پڑھا ہے۔‘‘
اس پر وہ کہتے ’’تم ایک بار بانی ایم اے کو ضرور پڑھو پھر تمہیں ایم اے تک نہ پڑھنے کا ملال نہیں رہے گا۔‘‘
بانی سے یہ میرا پہلا بالواسطہ تعارف تھا۔ بانی اور بانی کے کلام کے بارے میں کیلاش ماہر نے کچھ ایسی ’’تبلیغی فضا‘‘ قائم کر رکھی تھی کہ فطری طور پر بانی کا کلام پڑھتے ہوئے ڈر ہوتا تھا۔ پھر جو ادیب اور شاعر اپنے نام کے ساتھ اپنی تعلیمی قابلیت بھی بالالتزام لکھتے ہیں۔ ان کی چیزیں پڑھنے کو یوں بھی جی نہیں چاہتا۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ کسی نصابی کتاب کا سبق پڑھ رہے ہوں۔ مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آگیا۔ چھ ساتھ سال پہلے جب سلیمان ادیب کا انتقال ہوا تو ہم ان کی آخری رسومات کے سلسلہ میں قبرستان گئے۔ تدفین میں ابھی کچھ دیر تھی تو ہم لوگ اس شہر خموشاں کی قبروں کا معائنہ کرنے لگے۔ ایک قبر پر قبر کے مکین کا نام لکھا تھا اور اس کے آگے مرحوم کی تعلیمی قابلیت کچھ اس طرح لکھی تھی۔ ایم اے (علیگ) ڈی لٹ (آکسفورڈ) باریٹ لا (کیمبرج) اس کتبہ کو دیکھ کر میرے ایک دوست نے کہا تھا ’’بھئی بھاگو یہاں سے یہاں تو علم کا خزانہ دفن ہے۔‘‘ اور میں سچ مچ وہاں سے بھاگ گیا تھا۔ زندوں کی تعلیمی قابلیت کو تو چھوڑیئے مجھے تو مردوں کی تعلیمی قابلیت سے بھی الجھن سی ہوتی ہے۔ یوں جی دیکھنے میں آیا ہے کہ شاعر بہت زیادہ پڑھا لکھا ہو تو اچھے شعر کہنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ پڑھا لکھا آدمی تو کوئی بھی شریفانہ کام کر سکتا ہے شاعری کیوں کرے؟ ویسے اب تو بانی نے اپنے نام کے آگے ایم اے لکھنا ترک کردیا ہے مگر کچھ برس پہلے تک وہ لوگوں کو اپنی شاعری کے علاوہ اپنی تعلیمی قابلیت سے بھی دھمکاتے تھے۔
نومبر 1972میں جب میں دہلی آیا تو اس وقت تک میں نے ڈرتے ڈرتے بانی کا تھوڑا بہت کلام پڑھ لیا تھا۔ اور آج سربزم اس راز کا افشا کرتا چلوں کہ مجھے ان کا کلام بے حد پسند آیا تھا۔ دل میں اندیشہ تھا۔ کہ بانی سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر ضرور ملاقات ہوگئی۔ لہٰذا سوچا کہ ان کا مزید کلام پڑھ لینا چاہیے۔ اگر وہ اپنی شاعری کے بارے میں کبھی کوئی سوال پوچھ بیٹھیں، اور میں معقول سا جواب نہ دے سکوں تو سبکی ہوگی یوں بھی دور اندیش آدمی خطرہ کو پہلے ہی بھانپ لیتا ہے، میں بانی کے کچھ شعر یاد کر کے اور ان کے کلام کے بارے میں اپنی رائے پر مبنی چند جملے تراش کر دلّی میں بلا خوف و خطر گھومتا رہا کہ بانی اب جہاں چاہیں ملیں وہ مجھے یوں غفلت میں نہ پائیں گے۔ مگر ایک دن کسی نے بتایا کہ بانی ان دنوں موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ مجھے بڑا دکھ ہوا کہ میں نے امتحان کی طرح جو تیاری کی تھی وہ سب کی سب اکارت گئی۔ میں نے یہ تک نہیں پوچھا کہ وہ کس بیماری میں مبتلا ہیں۔ کب سے بیمار ہیں کیوں بیمار ہیں اور کب تک بیمار رہیں گے۔ شاعروں کی بیماری کے بارے میں یوں بھی کچھ نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں شاعر جب بھی بیمار ہوتا ہے کسی مہلک بیماری ہی میں مبتلا ہوتا ہے۔ بانی کے اکثر دوست قبرستان کی عیادت کو جاتے بلکہ بعض دوست تو انہیں دیکھنے کے لیے یوں خوشی خوشی جاتے جیسے بانی کو دیکھنے نہ جارہے ہوں کوئی فلم دیکھنے جارہے ہوں۔ غرض بانی چار پانچ مہینوں تک ہسپتال میں زبردست ’’رش‘‘ لیتے رہے مگر میں انہیں دیکھنے نہیں گیا۔ آدمی کتنا خود غرض اور زندگی کتنی ظالم چیز ہے۔
پھر بہت عرصہ بعد ماولنکر ہال میں ریڈیو کے ایک مشاعرہ میں انہیں جناب ’’دم گفتگو صد سخن معتبر راز‘‘ نے میرا تعارف بانی سے کرایا۔ بانی انہی دنوں ہسپتال سے چھوٹ کر آئے تھے۔ نقاہت کے باوجود بڑی گرم جوشی سے ملے پھر شکایت کی ’’بھئی ہم ہسپتال میں مہینوں تک موت سے لڑتے رہے مگر تم نے خبر تک نہ لی حالانکہ تمہیں دلّی آئے ہوئے تو کئی مہینے بیت گئے۔‘‘
بانی شکایت کرتے رہے اور میں نظر جھکائے بانی کے کلام کے بارے میں ان جملوں کو یاد کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا جو میں نے کبھی حفظ کر رکھے تھے۔ خدا دشمن کو بھی کمزور حافظہ نہ دے۔
بانی ان دنوں چھوٹی بحر کا مصرع بن گئے تھے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی بھی آگئی تھی جو اس مصرع کو وزن سے گرنے نہیں دیتی تھی۔ چھڑی کیا تھی اچھی خاصی ضرورت شعری تھی۔ اس وقت بانی کے حساب رنگ میں ایک ہی رنگ جڑا ہوا تھا اور وہ تھا زرد رنگ یوں لگتا تھا جیسے بانی بانی نہیں ہلدی کی گانٹھ ہیں۔
ان کے اندر بیٹھے ہوئے شاعر نے موت سے جو فیصلہ کن جنگ لڑی تھی۔ اس کے آثار اب تک ان کے چہرے پر عیاں تھے۔ بانی کو آج دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ اس زرد رنگ کو پھلانگ کر اب زندگی سے پھر رنگوں کا حساب مانگنے لگے ہیں۔
پھر بانی سے کافی ہاؤس، ادبی جلسوں اور مخصوص بیٹھکوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔
بانی کو میں نے ہر دم ایک سیدھے سادے اور معصوم آدمی مگر ایک سرکش اور چوکس شاعر کے روپ میں پایا۔ ایسا شاعر جس کے سامنے ہر دم اس کی شاعری رہتی ہے۔ بانی کی شاعری مال عرب ہے جو ہمیشہ پیش عرب رہتا ہے۔
بانی اصل میں چوبیسوں گھنٹوں کے شاعر ہیں۔ دن بھر میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آتا جس میں بانی شاعر نہ رہتے ہوں۔ ہر لمحہ انہیں یہ احساس رہتا ہے کہ وہ شاعر ہیں اور شاعر بھی ایسے ویسے نہیں بہت بڑے شاعر۔ جب بھی ملیں گے اپنی شاعری کے فوائد سے لوگوں کو یوں واقف کرائیں گے جیسے ان کی شاعری نہ ہو کوئی مجرب نسخہ ہو۔ پھر یہ بھی کہیں گے۔ ’’یار ہم نے اردو شاعری کو اتنا سب کچھ دیا ہے۔ بتاؤ آخر کب ہماری قدر ہوگی۔‘‘ مخاطب مجھ جیسا ہوگا تو کہے گا ’’بانی صاحب جس زبان میں آپ شاعری کرتے ہیں اسے ذرا ختم تو ہولینے دیجئے ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ اس کے بعد آپ کی قدر ضرور ہوگی۔‘‘ اور اگر مخاطب معصوم اور بھولا بھالا ہوگا تو کہے گا۔ ’’بانی صاحب آپ تو ESTABLISHED شاعر ہیں۔ پھر آپ کو یہ گلہ کیوں کہ آپ کی قدر نہیں ہورہی ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود بانی زمانہ کی بے مہری کا شکوہ کرتے رہیں گے۔ پھر اچانک اپنی جیب سے بیڑی نکال کر اسے جلاتے ہوئے اپنا ایک شعر پڑھ دیں گے۔ اور مخاطب کے چہرہ پر بیڑی کا دھواں چھوڑتے ہوئے پوچھیں گے ’’ہے کسی کی مجال جو ایسا شعر کہہ کر دکھادے۔‘‘
اردو غزل میں مقطع کی ایجاد صرف اس لیے ہوئی تھی کہ شاعر اس میں حسب استطاعت اپنی تعریف و توصیف کرے۔ لیکن بانی اپنی تعریف کے لیے مقطع کو ناکافی سمجھتے ہیں،
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
اسی لئے وہ عام نثری بات چیت میں بھی ہر دم مقطع ہی کہتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں دہلی آنے کے بعد میں نے بانیؔ کے کلام کے بارے میں اپنی رائے پر مبنی چند جملے تراش لیے تھے۔ چاہتا تھا کہ کبھی یہ توصیفی کلمات بانی کے گوش گزار کروں گا۔ مگر بانی جب بھی ملے وہ اپنے کلام کے بارے میں اپنی ہی رائے کو مجھ پر ظاہر کرنے میں اس قدر مصروف رہے کہ کبھی مجھے اپنی ناچیز رائے کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ بلکہ یہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ جملے میں نے تراش رکھے تھے ہو بہو وہی جملے بانی اپنے بارے میں کب کے کہہ چکے ہیں،
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
بانی کے اسی وصف کی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پیٹھ پیچھے تعریف کرتے ہیں اور ان کا سامنا ہو تو منہ لٹکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے اس نفسا نفسی کے زمانہ میں پیٹھ پیچھے تعریف کسے ملتی ہے۔ بانی کی غیر موجودگی میں میں نے ہر دوست سے بانی کے کلام کے بارے میں رائے پوچھی ہے اور آج تک ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جس نے بانی کی شاعری میں کوئی میخ نکالی ہو۔ مگر نہ جانے بانی کی موجودگی میں لوگوں کو کیوں چپ سی لگ جاتی ہے۔
اصل میں بانی کے اندر جو شاعر بیٹھا ہوا ہے وہ ہر دم اپنی گردن اکڑائے رکھنا چاہتا ہے۔ چاہے ا یسا کرنے سے اس کی گردن میں درد ہی کیوں نہ ہونے لگے بانی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اب وایٹ کا لرڈ شاعر بھی پیدا ہونے لگے ہیں ایک دلچسپ بات اور بھی بتلا دوں کہ بانی کے اندر جب شاعر بہت زیادہ بیدار ہوتا ہے تو بانی خود اپنے آپ کو ’’بانی صاحب۔ بانی صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں اپنے ایک حیدر آبادی دوست کے ہمراہ کافی ہاؤس گیا تو دیکھا کہ بانی دوستوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔ مسئلہ کچھ یوں زیر بحث تھا کہ بانی فلاں مشاعرہ میں کیوں نہیں گئے۔ بحث پہلے سے جاری تھی اور جب ہم ٹیبل پر پہنچے تو بانی دوستوں سے یوں مخاطب تھے۔
’’بھئی بانی صاحب کو تم جانتے ہی ہو۔ وہ کیوں اس طرح کے مشاعروں میں جانے لگیں۔ بانی صاحب کو لوگوں نے سمجھ کیا رکھا ہے۔ بانی صاحب کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں۔‘‘ غرض وہ بڑی دیر تک بانی صاحب ہی کی باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ ٹیبل سے اٹھ کر چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو میرے حیدرآبادی دوست نے کہا ’’یار بانی تو دہلی میں ہی رہتے ہیں۔ ان سے ملنے کی بڑی تمنا ہے۔ بڑا اشتیاق ہے۔ پھر ابھی جو صاحب اٹھ کر گئے ہیں۔ انھوں نے تو اس آتش شوق کو اور بھی بھڑکا دیا ہے۔ یار ہماری ان سے ملاقات تو کرادو۔‘‘ محفل میں زور دار قہقہے بلند ہوئے اور میں نے اپنے دوست کو بتلایا۔ ’’میاں یہ جو صاحب ابھی تمہاری آتش شوق کو بھڑکا رہے تھے وہ اصل میں بانی صاحب ہی تھے۔ بانی صاحب کے راستہ میں خود بانی صاحب حائل ہیں۔ اب یہ تمہاری بدقسمتی ہے کہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔‘‘
اور میرا دوست حیران اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمارے قہقہوں کو دیکھتا رہ گیا۔ میں یہ بات مذاق میں نہیں بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ احتشام حسین مرحوم سے لے کر باقر مہدی اور شمس الّرحمن فاروقی تک سب ناقد بانی کے سچے قدردان ہیں۔ موخرالذکر دوناقدوں کی قدردانی کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔
ڈاکٹر نارنگؔ کے گھر پر ایک محفل میں جب بانی سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو شمس الّرحمن فاروقینے کہا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے، بانی اپنے رتبہ کے اعتبار سے آخر میں کلام سنائیں گے۔ پہلے میں سنائے دیتا ہوں۔‘‘
باقرؔ مہدی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ مگر یہاں مقطع میں سخن گسترانہ بار آگئی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ فکر تو نسوی کے گھر پر شعر و شراب کی محفل جمی ہوئی تھی۔ محفل کا رنگ دیکھ کر میں نے باقر مہدی سے خواہش کی کہ وہ اپنی کوئی غزل سنائیں۔ اس فرمائش پر باقر مہدی نے گلاس میں رکھی ہوئی شراب کو ایک ہی گھونٹ میں پی لیا۔ اپنے پائپ کو الگ رکھا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ بانی کے سامنے جوڑتے ہوئے کہا ’’بانی کے سامنے میری کیا مجال کہ میں شعر سناؤں۔ آج ہم بانی کو سنیں گے۔ ’’بانی دی گریٹ۔‘‘
بانی، باقرؔ مہدی کے اس ادا پر کچھ اس طرح فریفتہ ہوئے کہ اپنے گلاس کی ساری شراب، جو کافی مقدار میں تھی، باقر مہدی کے گلاس میں انڈیل دی۔ باقر مہدی نے اسی سرعت کے ساتھ یہ شراب بھی ایک ہی گھونٹ میں پی لی۔ ایک لمبا سانس لیا۔ پھر میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری اور کہا ’’اچھا بھئی تو لو ہم تمہیں اپنی غزل سناتے ہیں‘‘ اس کے بعد باقرؔ مہدی پورے ایک گھنٹے تک اپنی غزل پینترے بدل بدل کر سناتے رہے کبھی ترنم سے کبھی تحت اللفظ، کبھی بیٹھ کر کبھی کھڑے ہوکر اور کبھی لیٹ کر اور میں بانیؔ کی معصومیت اور باقرؔ مہدی کی غزل دونوں پر باری باری سے اپنے دل میں مسکراتا رہا۔ میں بانی کو یہ دوستانہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ مستقبل میں کبھی اپنے حصے کی شراب ناقدوں کو نہ دیا کریں۔ یوں بھی ناقدوں کو اپنے کلام کے سوائے اور کچھ نہیں دینا چاہیے۔ ایسی دریا دلی سے کیا فائدہ جس میں نہ خدا ہی ملے نہ وصال صنم۔
بانی کو میں نے جب بھی دیکھا دوچھڑیوں کے ہمراہ پایا جو ہمیشہ ایک دوسرے کو نہ صرف حسرت بلکہ کنورسین حسرتؔ کی نظر سی دیکھتی رہتی ہیں۔ بانی کی نہ جانے ایسی کیا کمزوری ہے کہ کنورسین حسرتؔ اور چھڑی کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ادبی محفل میں جانا ہوگا تو کنور سین ان کے ساتھ ہوں گے کہیں کام پر جانا ہوگا تو کنورسین تب بھی ساتھ ہوں گے۔ کسی دور دراز مقام پر مشاعرہ پڑھنے جائیں گے۔ تو تب بھی کنور سین ان کے ساتھ ہوں گے۔ اب تو مجھے شبہ ہونے لگا ہے کہ اگر خدا نخواستہ بانی کو جہنم میں جانا پڑے تو تب بھی وہ کنور سین کو زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے جائیں گے۔ کنور سین کو بہرحال ایک نہ ایک دن اپنے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔
ایک دن میں نے کنور سین حسرت سے تنہائی میں، جو بڑی مشکل سے میسر آتی ہے، پوچھا۔ ’’حسرت صاحب! یہ آپ ہر دم بانی کے باسویل کیوں بنے پھرتے ہیں؟‘‘
تنک کے بولے ’’برخوردار! جانسن اور بانی تو آئے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر باسویل صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ پھر اپنی تاویل کے تابوت میں آخری کیل اقبال کے اس مصرع سے ٹھونکی کہ ؎
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس کے بعد پھر کبھی میری ہمت نہیں پڑی کہ اس بند تابوت کو کھولوں۔
بانی ایک سچے اور مخلص دوست ہیں وہ اپنے ہر دوست اور اپنے ہر شناسا کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ حد ہوگئی کہ تادم تحریر وہ میرے بھی مداح ہیں۔ آگے کا حال خدا جانے۔ دوستوں کی عزت افزائی اور قدردانی کے معاملہ میں وہ کچھ کچھ سوشلزم کے قائل ہیں۔ شاعر چھوٹا ہو یا بڑا اگر اپنا شعر بانی کو سناتا ہے تو بانی اس پر ہمیشہ یکساں داد دیں گے۔
میں اب اس خاکہ کے مقطع کی طرف جارہا ہوں۔ مگر آپ گھبرائیے نہیں میں اس میں اپنی تعریف نہیں بلکہ بانی کی ہی تعریف کروں گا۔ میں بانی کے اس خیال سے متفق ہوں کہ وہ اس دور کے بڑے شاعر ہیں مگر میں بانی سے یہ درخواست کروں گا کہ آج وہ میرے اس خیال سے متفق ہوں کہ بانی اس دور کا بڑا شاعر ہے۔ اچھی رائے کے معاملہ میں کبھی کبھی دوستوں کی رائے سے بھی متفق ہونا چاہیے۔
کبھی کبھی رات کو جب میں تھکا ماندہ گھر پہنچتا ہوں اور اتفاق سے بانی کا مجموعۂ کلام میرے ہاتھ پڑجاتا ہے تو رات کتنی حسین دکھائی دینے لگتی ہے۔ ستارے بانی کے شعروں کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔ رات کا سناٹا بانی کی زبان بولنے لگتا ہے بستر کی سفید چادر بانی کے بے داغ فن کی طرح دمک اٹھتی ہے۔ زندگی کی بے ترتیبی پر بانی کے لہجہ کا قرینہ چھا جاتا ہے۔ سارا وجود روئی کے گالوں کی طرح سبک بن جاتا ہے۔ پھر میں سوچنے لگتا ہوں بانی شاعر ہے یا جادوگر؟
ایک بار بانی نے چند بے تکلف احباب کی محفل میں برے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا ’’یار، اردو کے اس دردزوال میں بڑی عظیم شاعری ہو رہی ہے۔ مگر اس دورزوال کے بعد کیا ہوگا؟ ہم جو چند احباب آج یہاں بیٹھے ہیں کیا آنے والے کل کی گود میں بھی ایسے ہی احباب بیٹھیں گے۔‘‘ بانی کی یہ بات مجھے ہر لمحہ جھنجھوڑتی رہتی ہے مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہم سب اپنی اپنی گمنام شہرتوں کی صلیبیں اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے مقتل کی طرف جارہے ہیں۔ جہاں ہم خود اپنے آپ کو مصلوب کریں گے۔ اس کے بعد نہ ہمارا کوئی حرف معتبر ہوگا اور نہ ہی کوئی رنگوں کا حساب پوچھے گا۔ آخر میں میں اس خاکہ کو بانی کے اس پرامید شعر پر ختم کرنا چاہوں گا،
اے ساعت ازل کے ضیا ساز فرشتے
رنگوں کی سواری کے نکلنے کی خبر دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.