باری صاحب
مستبد اور جابر حکمرانوں کا عبرت ناک انجام
روس کے گلی کوچوں میں صدائے انتقام
زاریت کے تابوت میں آخری کیل
ان تین جلی سرخیوں کے قدِ آدم ا شتہار امرتسر کی متعدد دیواروں پر چسپاں تھے۔ لوگ زیادہ تر صرف یہ سرخیاں ہی پڑھتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرتے چلے جاتے تھے۔ معلوم نہیں سن کون سا تھا مگر موسم گرفتاریوں کا تھا اور ایسے موسم امرتسر میں آتے ہی رہتے تھے۔ غالباً ان دنوں بموں کی وارداتیں بھی ہوئی تھیں، خط ڈالنے والے لال لال بھبکوں میں آگ لگانے والی چیزیں ڈالنے کاشغل بھی جاری تھا۔ فضا خاصی سہمی ہوئی تھی۔ اس لئے یہ اشتہار جو امرتسر کی دیواروں پر جا بجا چسپاں تھے، پاس سے گزرنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے تو تھےمگروہ جلدی جلدی نظروں سے اشتہار کی عبارت کے چند نوالے اٹھا کر اپنا رستہ پکڑتے تھےکہ کہیں اسی جرم میں نہ دھر لیے جائیں۔
یہ اشتہار آسکر وائلڈ کے ایک گھٹیا سے ڈرامے’’ویرا‘‘ کے اردو ترجمے کا تھا جو میں نے اور میرے لنگوٹیے حسن عباس نے مل کر کیا تھا، اور اصلاح اختر شیرانی سے لی تھی۔ باری صاحب نے جو میرے اور حسن عباس دونوں کے گرو تھے، اس ترجمے میں ہماری مدد کی تھی۔ کتاب ہم نے خود ثنائی برقی پریس میں چھپوائی تھی۔ باری صاحب اس کے تمام فرمے خود اپنے کندھوں پر لاد لاد کر گھر لائے تھے تاکہ محفوظ رہیں۔ ان کو خطرہ تھا کہ پولیس چھاپہ مارکر پریس میں سے ساری کتاب اٹھا لے جائے گی۔ میرے اور حسن عباس کے لیے یہ سب سلسلہ بڑا دلچسپ اور حرارت بخش تھا۔ جیل میں کیا کیا صعوبتیں اٹھانا پڑتی ہیں، تھانوں میں کیا درگت ہوتی ہے، اس کے متعلق ہمارے پرجوش اور کھلنڈرے دماغ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر قید ہوگئے تو یہ وطن کے لئے بڑی قربانی ہوگی۔ رہا ہوکر آئیں گے تولوگ ہار پہنائیں گے اور جلوس نکالیں گے۔
ڈرامہ، روس کے دہشت پسندوں اور نراجیوں کی سرگرمیوں کے متعلق تھا جن کے پاس ہر قسم کے ہتھیار موجود تھے۔ امرتسر میں ان دنوں اگر کوئی ہوائی بندوق سے بھی مسلح ہونا چاہتا تو یقیناً اسے توپ دم کردیا جاتا۔ کہاں ماسکو، کہاں امرتسر، مگر میں اور حسن عباس نئے نئے باغی نہیں تھے۔ دسویں جماعت میں دنیا کا نقشہ نکال کر ہم کئی بار خشکی کے رستے روس پہنچنے کی اسکیمیں بنا چکے تھے۔ حالانکہ ان د نوں فیروز الدین منصور بھی کامریڈ ایف ڈی منصور نہیں بنے تھےاور کامریڈ سجاد ظہیر شاید بنے میاں ہی تھے۔ ہم نے امرتسر ہی کو ماسکو متصور کرلیا تھا اور اسی کے گلی کوچوں میں مستبد اور جابر حکمرانوں کا انجام دیکھنا چاہتے تھے۔ کٹرہ جیمل سنگھ، کرموں ڈیوڑھی، یا چوک فرید میں زاریت کا تابوت گھسیٹ کر اس میں آخری کھیل ٹھونکنا چاہتے تھے۔ کیل ٹیڑھی ہو جاتی، یا ہتھوڑے کی ضرب اس کے بجائے ہماری کسی انگلی کو زخمی کردیتی، اس کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
باری صاحب۔۔۔ ’’اشتراکی ادیب باری‘‘ ہمارے گرو تھے۔ سوچنا ان کاکام تھا۔ لیکن مجھے بار بارمحسوس ہوتا تھا کہ یہ آدمی جس کو ہم نے اپنا رہنما بنایا ہے، بڑے کمزور دل کا آدمی ہے۔ ذرا سا پتا کھڑکتا تھا تووہ چونک پڑتے تھے۔ پر ہماری پر خلوص گرمجوشی ان کے متزلزل قدموں کو ہمیشہ مضبوط بنا دیتی تھی۔
اب سوچا جائے تو اس زمانے کی یہ سب حرکتیں چھوٹے چھوٹے کھلونے معلوم ہوتی ہیں، لیکن اس وقت یہ کھلونے ہی عظیم الجثہ اور قومی ہیکل تھے۔ ان سے پنجہ لڑانا گویا کسی دیو سے زور آزمائی کرنا تھی۔ ہمارے خلیفہ صاحب یعنی باری اگر بزدل نہ ہوتے تو یقیناً ہم چاروں (کچھ عرصے کے بعد ابو سعید قریشی بھی ہمارے تگڈے میں شامل ہوگیا تھا) اسی زمانے میں ان کھلونوں سے اپنا جی بہلانے کے جرم میں پھانسی پا گیے ہوتے اور امرتسر کی خونیں تاریخ میں ایسے شہیدوں کے نام کا اضافہ ہوگیا ہوتا جو اب خلوصِ دل سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اس وقت اپنے اس جوش کے رخ کا بھی صحیح علم نہیں تھا۔
میں نے باری صاحب کوبزدل کہا ہے۔ ان کی شخصیت پر کسی حملے کی غرض سے نہیں۔ اصل میں ان کی شخصیت کی ترتیب و تدوین میں اس بزدلی کا بہت نمایاں حصہ تھا۔ اگر کسی وجہ سے ان کے دماغی اور جسمانی نظام سے یہ کمزوری نکل جاتی تووہ، وہ باری نہ ہوتے جو وہ تھے۔ ان کا تشخص بالکل جدا قسم کا ہوتا۔ ہوسکتا ہےوہ ہاکی کے مشہور عالم کھلاڑی ہوتے اور دوسرے نامور کھلاڑیوں کی طرح ان کی عمر کسی ریاست کی نوکری میں گزرتی، یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ پرائمری اسکول کے استاد سے ترقی کرتے کرتے کسی یونیورسٹی کے ریڈر ہو جاتے۔ اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ بھگت سنگھ کی طرح بمبار ہوتے۔ بھگت سنگھ انہی کے ضلع یعنی لائل پور کا رہنے والا تھا اور باری صاحب اس کو اچھی طرح جانتے تھے۔۔۔ یہ صرف بزدلی ہی کا باعث ہے کہ وہ ہمیشہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے۔ ساری عمر جہاں رہے معلق رہے اور میں تو سمجھتا ہوں اس دوران میں ان کے بلا کے تیز دماغ میں جو خیال بھی پیدا ہوا، بزدلی کی کھونٹی سے لٹکا رہا۔
باری صاحب بڑی بڑی نرالی باتیں اور اسکیمیں سوچتے رہے، ایسی جوکسی اور کے ذہن میں آسانی کے ساتھ نہیں آسکتیں۔ مگر یہ اتنی سرعت سے غائب ہو جاتی تھیں کہ ان کے آثار تک بھی نہ رہتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ انہوں نے زندگی کے سمندر میں اچانک کسی دلچسپ ٹاپو کی موجودگی کا انکشاف کیا، اس کو سر کرنے کے لئے کیا کیا تدابیر عمل میں لائی جانی چاہئیں۔ سب کی سب سمجھا دیں۔ وہاں پہنچ کر جو نعمتیں اور گڑی ہوئی دولتیں میسر آئیں گی، ان کی تصویر کشی بھی کردی۔ سننے والے کمر باندھ کر اس مہم کے لئے تیار ہوگئے۔ ان میں سے کچھ رختِ سفر باندھ کرروانہ بھی ہوگئے لیکن جب مڑ کے دیکھا تو باری صاحب غائب۔۔۔ واپس آکر ان سے استفسار کرنا چاہا تو انہوں نے کسی اور دلچسپ جزیرے کا ذکر چھیڑ دیا، جووہ اس دوران میں دریافت کرچکے تھے۔
متذکرہ صد راشتہار چسپاں کرنے کے بعد چنانچہ یہی ہوا، میں اور عباس دونوں رات بھر گرفتار ہو جانے کی سنسنی کے ساتھ آدھے سوئے، آدھے جاگتے رہے۔ دوسرے روز نئے نویلے دولہوں کی طرح ہم تجربہ کار باری کو ڈھونڈتے رہے کہ ان سے پوچھیں آگے کیا ہوگا، مگروہ غائب تھے۔ دو تین جگہیں تھی جہاں وہ جاتے تھے مگر ان میں سے کسی ایک پر بھی وہ موجودنہ تھے۔ پندرہ روز کے بعد اچانک نمودارہوئے، تو انہوں نے ایک ہفتہ وار پرچہ جاری کرنے کی اسکیم سے ہمیں اپنے مخصوص انداز میں مطلع کیا، ’’میں آپ کی طرح بیکار نہیں تھا۔ سارے انتظامات مکمل کرلیےہیں۔ بس ڈیکلریشن داخل کرنا ہے۔۔۔ مضمون میں آج ہی سے لکھنا شروع کردوں گا۔‘‘
امرتسر کی دیواروں پر زاریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے والے اشتہار کچھ تو اکھڑ گئے اور کچھ قوتِ مردمی کی دواؤں کے پوسٹروں تلے دب گئے اور ہمارا جوش ادھر سے منتقل ہو کر ہفتہ وار پرچے کی ابتدائی کارروائیوں میں داخل ہوگیا۔
’’ویرا‘‘ ناقص کتابت اور واہیات طباعت کے باعث میرے گھر میں مقفل پڑی رہی۔ لیکن’’خلق‘‘کے صوری حسن کے لئے ہم نے اپنی پہلی فروگزاشتوں سے فائدہ اٹھایا۔ جب اس پرچے کا پہلا شمارہ ثنائی برقی پریس سے میں اور باری صاحب کندھوں پر اٹھا کر گھر لائے تو اس کی گوارا کتابت و طباعت سے ہم بہت مطمئن تھے۔
باری صاحب کے ایک کرم فرما تھے۔ میں ان کا نام بھول گیا ہوں، لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ سیاہ داڑھی والے ایک صاحب تھے جو غالباً چمڑے کے سوداگر تھے۔ ’’خلق‘‘ کے اجراء میں مالی ہاتھ ان کا تھا۔ وہ اور بھی سرمایہ لگانے کے لئے تیار تھے مگر باری صاحب میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔
پہلے شمارے میں سرورق پر ان کا ایک مضمون تھا، ’’ہیگل سے لے کرکارل مارکس تک۔‘‘ ایک مختصر سا خاکہ تھا۔ اشتراکی فلسفے کے ارتقا کے بارے میں جو میری اور حسن عباس کی فہم سے بالاتر تھا۔ اصل میں ہم ہیگل سے واقف تھے نہ کارل مارکس سے۔ آخر الذکر کا نام باری صاحب سے کئی مرتبہ سنا تھا جس سے ہم کو اتنا معلوم تھا کہ وہ مزدوروں کا بہت بڑا حامی تھا۔ اس کا فلسفہ کیا تھا اور اس کے ڈانڈے حکیم ہیگل سے کہاں اور کیونکر ملتے تھے، ایمان کی بات ہے، اس کے متعلق ہماری معلومات صفر تھیں۔
اپنے افسانوں کے قارئین کی دلچسپی کے لیے ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ میرا سب سے پہلا طبع زاد افسانہ’’تماشا‘‘ کے عنوان سے’’خلق‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ میں نے اس پر اپنا نام نہیں دیا تھا۔ اس ڈر سے کہ لوگ مذاق اڑائیں گے۔ ان دنوں میرے جاننے والے ازارہِ تمسخر میری سقیم تحریروں پر خوب ہنسا کرتے تھے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ باری صاحب نے جن کو میری محدود علمیت کا پتہ تھا، میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ یہاں تک کہ مجھے میری اغلاط سے بھی کبھی روشناس نہ کیا۔ وہ کہا کرتے تھے، ’’سب ٹھیک ہے۔‘‘
بات میں سے بات نکل آتی ہے ۔ مجھے باری صاحب کے میدان چھوڑ کر بھاگ جانے کے متعلق کچھ کہنا تھا۔ ’’خلق‘‘ کا پہلا شمارہ شائع ہوا، چند روز بڑے جوش و خروش میں گزرے۔ میں اور عباس یوں محسوس کرتے تھے، جیسے ہم سے کوئی بڑا کارنامہ سرزد ہوگیا ہے۔ کٹرہ جیمل سنگھ اور ہال بازار میں ہم ایک نئی شان سے چلتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ہمیں محسوس ہوا کہ امرتسر کی نظروں میں ہم ویسے کے ویسے آوارہ گرد ہیں۔ پان سگرٹ والے بدستور اپنے پیسوں کا تقاضا کرتے اور خاندان کے بزرگ برابر اپنا وہی فیصلہ سناتے تھے کہ ہمارے لچھن اچھے نہیں۔۔۔ لچھن و اقعی کچھ اچھے نہیں تھے اس لئے کہ خفیہ پولیس نے پوچھ گچھ شروع کردی اور اسی سلسلے میں کوچہ وکیلاں تک پہنچ گئی۔ میرے بہنوئی خواجہ عبدالحمید صاحب ان دنوں نئے نئے ریٹائر ہوئے تھے۔ آپ ایک عرصہ تک پھلور کے پولیس اسکول میں استاد رہ چکے تھے۔ اس لئے پنجاب پولیس کے قریب قریب تمام آدمیوں کو جانتے تھے۔
خفیہ پولیس کے سپاہی جب باری صاحب کا اتا پتا معلوم کرنے کے لیے کوچہ وکیلاں میں پہنچے تو ان کی خواجہ صاحب سے مڈبھیڑ ہوئی۔ وہ باری صاحب کا وہ خطرناک مضمون’’ہیگل سے کارل مارکس تک‘‘ پڑھ چکے تھے۔ اس کے علاوہ باری صاحب کو بھی اچھی طرح جانتے تھے اور تاریخ سے جو ان کی دلچسپی تھی، اس کی قدر کرتے تھے۔ ان کا انداز بیان جو خطیبانہ ہوا کرتا تھا انہیں پسند تھا۔ اس لئے انہوں نے خفیہ پولیس کے سپاہیوں سے کہا، ’’جاؤ۔‘‘ کوئی اور کام کرو۔ ہیگل اور کارل مارکس تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔۔۔ غریب باری بھی ابھی تک ان کے فلسفے کو اچھی طرح نہیں سمجھا۔‘‘
خواجہ صاحب نے جب ان کو یقین دلایا کہ مضمون میں کوئی بغاوت انگیز چیز نہیں جس سے سرکارِ برطانیہ کا تختہ الٹنے کا اندیشہ ہو تو وہ چلے گئے۔ لیکن جب باری صاحب کو اس کا پتہ چلا کہ حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی ہے تو انہوں نے ’’خلق‘‘ کا صرف دوسرا پرچہ نکالا اور اسے میرے پاس چھوڑ کر کہیں غائب ہوگئے اور بہت دیر تک معلوم نہیں کہاں کہاں گھومتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا ایک کارڈ ملتان سے آیا تھا۔ جس میں کچھ اس قسم کا مضمون تھا، ’’ملتان کی رسدگاہوں میں اپنے ستاروں کا مطالعہ کررہا ہوں۔‘‘
یہ عجیب بات ہے کہ گردش کے دوران میں جب کبھی ان کا خط کسی شہر سے آتا تھا تو اس میں یہ اطلاع انہی الفاظ میں ضرور ہوتی کہ وہ اس کی رسد گاہوں میں اپنے ستاروں یا نجوم کا مطالعہ کررہے ہیں۔ یہ مطالعہ میرا خیال ہے وہ ہر اس گلی، ہر اس کوچے کی رسد گاہ میں کرتے رہے جہاں انہوں نے کچھ عرصے کے لئے قیام کیا۔ قبر کی تاریک رسدگاہوں میں بھی وہ یقیناً ان ہی ستاروں کے مطالعے میں مصروف ہوں گے۔ مگر افسوس ہے کہ وہ یہاں سے مجھے کوئی ڈاک کارڈ نہیں بھیج سکتے۔
مرحوم کو ڈاک کارڈ بہت پسند تھے، اس لئے کہ لفافوں کے مقابلے میں ان پرخرچ کم ہوتا ہے۔ خطوں کا جواب دینے کے معاملے میں وہ بہت سست تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے انہیں امرتسر سے پے در پے کئی خط لکھے۔ جب کوئی جواب نہ آیا تو میں نے پانچ پانچ پیسے کے دو ٹکٹ ان کو روانہ کیے اور یہ تاکید کی کہ وہ اب جواب ضرور دیں۔ ان کا جواب آیا، مگر ڈاک کارڈ پر لکھا تھا، تمہارے بھیجے ہوئے ٹکٹ میں نے بیچ ڈالے۔ ایک کارڈ خرید کر تمہیں لکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب خط مجھے مل چکے ہیں۔
مجھے بہت غصہ آیا، فوراً لاہور پہنچا، ارادہ تھا کہ ان کی طبیعت صاف کردوں گا، مگر جب ہم عرب ہوٹل میں بیٹھے اور میں نے ان کی ذلیل حرکت کے متعلق بات کرنا چاہی تو انہوں نے لاہور کی رسدگاہوں میں میرے ستاروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ اور آخر میں فیصلہ یہ ہوا’’تم گھر کے معاملات ٹھیک ٹھاک کرکے فوراً لاہور چلے آؤ اور کسی اخبار میں ملازمت کرلو۔‘‘
ایسے کئی موقعے آئے کہ میں نے بڑی سنجیدگی سے باری صاحب پر اپنی خفگی و ناراضی کا اظہارکیا اور وہ بھی اس ارادے کے ساتھ کہ ان کی میری کٹی ہو جائے، مگر ان کی باتیں کچھ ایسی تھیں کہ مجھے غیر مسلح کردیتی تھیں۔ موٹا موٹا گول چہرہ، سیاہی مائل گندمی رنگ، بہت بڑا سر، قد متوسط، کالے کالے ہونٹ، مسوڑے بھی کالے، مگر جب ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوتی تھی تو آس پاس کے تمام خط و خال اپنی سیاہ قبا اتار پھینکتے، جو عدالتوں کی سی خشک سنجیدگی اور متانت کا باعث ہوتی تھی۔ صرف ان مسکراتے ہوئے لمحات کی رسدگاہوں میں وہ اپنے ستاروں کا مطالعہ نہیں کرتے تھے، اور میں سمجھتا ہوں کہ صرف انہی لمحات میں ان کے مسلسل مطالعے سے اکتائے ہوئے یہ ستارے بھی تھوڑی دیر کے لیےمسکرا لیتے تھے۔
باری صاحب بزدل تھے۔ خدا کی قسم بہت بزدل تھے۔ زیادہ کھا لیتے تو ڈرتے رہتے تھے کہ ان کی توند نکل آئے گی۔ حالانکہ فاقوں کے زمانے میں بھی ان کے جسم کا یہ حصہ بڑھتا رہا۔ زیادہ تیز بھاگتے نہیں تھے کہ ان کے دل پر اس کا اثر پڑے گا۔ حالانکہ ان کے جسم کے اسی رئیس عضو نے ان کا ساتھ چھوڑا۔ بڑی بڑی سرخ بغاوتوں کے نیلے نقشے تیار کرتے تھے، اور پٹاخے کی آواز سن کر زرد ہو جاتے تھے۔ ان کو ایک لڑکی سے محبت تھی۔ لیکن ماں باپ کسی اور سے ان کا رشتہ پکا کرچکے تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ عشق فرما رہے ہیں تو انہوں نے شادی کی تاریخ پکی کردی۔ باری صاحب ان دنوں میرے ساتھ رہتے تھے۔ جب تاریخ نزدیک آئی تو غائب ہوگئے۔ لیکن بکرے کی ماں زیادہ دیر تک خیر نہ منا سکی۔ ان کی ہونے والی دلہن نے ایک بڑا معرکے کا خط لکھا جس میں یہ دھمکی درج تھی کہ اگر انہوں نے اس سے شادی نہ کی تووہ ان کے پیٹ میں چھری بھونک دے گی۔۔۔ باری صاحب ڈرگئے اور شادی کرلی۔
برما کی رسدگاہوں میں اپنے ستاروں کا مطالعہ کرنے کے لیے پہنچے تووہاں ایک برمی لڑکی کا ستارہ ان کے ستاروں سے ٹکرا کر ان میں الجھ گیا۔ آپ نے اپنی بیوی کو وہاں بلا لیالیکن ستاروں کا الجھاؤ بدستور قائم رہا۔ آخر جنگ چھڑنے پر ان کو ایک موقعہ ملا اور وہاں سے بھاگ آئے۔ بڑے رن چھوڑ قسم کے آدمی تھے۔ ۔ اقبال کی خودی کا فلسفہ ان کو اس قدر پسند آگیا تھا کہ اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا مگر سردیوں میں معلوم ہوا کہ یہ کام نہیں دے سکتا۔ اقبال کے ارشاد کے مطابق انہوں نے اپنی خودی کو مقدور بھر اونچا کرنے کی کوشش کی مگر باری تعالیٰ نے ان سے کبھی یہ پوچھنے کی تکلیف گوارا نہ کی کہ اے باری بتا تیری رضا کیا ہے۔ آخر ایک دن وہ خود ہی اقبال سے پوچھنے گیے کہ یہ گڑ بڑ کیا ہے۔
ان دنوں باری صاحب کی اپنے اخبار کے دفتر میں رات پالی ہوتی تھی۔ آخری کاپی پریس بھیج کر جب فارغ ہوتے تو علامہ اقبال مرحوم کی قبر پر چلے جاتے اور دیر تک ان کی روح سے فلسفہ خودی پربات چیت کرتے رہتے۔ بہت تنگ حال تھے۔ تنخواہ کبھی کبھی ملتی تھی اور وہ بھی قسطوں کی صورت میں۔ اخباروں کے مالک یہ سمجھتے تھے کہ ان کے عملے کے آدمی بار بردار حیوان ہیں، جس کو جو کچھ دے دیا جائے وہی بہت ہوتا ہے۔ باری صاحب حساس آدمی تھے۔ قرض لیتے تھےمگر بوجھ محسوس کرتے تھے۔ خودی کو وہ کافی بلندی پر لے گئے تھے مگر اب اس میں اور زیادہ بلندی تک پہنچنے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ بھنا کر علامہ اقبال کی قبر پر گئے اور ان کی روح سے بڑے باغیانہ سوال کرنے شروع کردیے۔ میرا خیال ہے اگہ علامہ زندہ ہوتے تو انہیں ان سوالوں کا جواب دیتے وقت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔
بغاوت کا یہ جوش بھی ان کے دل و دماغ میں ٹھنڈا ہوگیا۔ اگر بزدل نہ ہوتے تو میرا خیال ہے کہ عام انسانی زندگی پر اقبال کے فلسفہ خودی کے تطبیق و اطلاق کے مسئلے پر یقیناً بصیرت افروز روشنی ڈال سکتے۔ مگر وہ تمام کونپلیں جو ان کے حساس دل و دماغ کی شاخوں سے جوش کے باعث پھوٹی تھیں، اس بزدلی کے باعث مرجھا گئیں، معلوم نہیں، ان کے دوسرے دوست مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن میں سمجھتا ہوں، اگر وہ ثابت قدم ہوتے اور گردوپیش کی مخالف قوتوں کا مقابلہ ڈٹ کر کرتے تو ان کے قلم سے’’انقلابِ فرانس‘‘ کے بجائے’’انقلابِ ہندوستان‘‘ نکلتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کا تانتیا ٹوپے ان کے قالب میں دوسرا جنم لیتا۔
اقبال کی طرح وہ بھی خدا سے یہ کہتے رہے، ’’کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر۔۔۔‘‘ مگر اس وقت جب کہ ان کو خدا کی طرف سے کوئی بلاوا نہیں آتا تھا لیکن جب بلاوا آیا تووہ کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر نہ کہہ سکے، اور اقبال کے مانند چل دیے۔ وہ کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑانے کے لئے تیار کرتے رہتے۔ مگر جب اسے پالی میں اتارنے کا مرحلہ آتا تو پنجرہ وہیں چھوڑ کے بھاگ جاتے، اس غریب کو دو دو چونچیں لینے اور شکست کھانے کا بھی موقعہ نہ ملتا۔
باری صاحب خیالی پلاؤ پکانے کے معاملے میں اول درجے کے بکاول تھے۔ ایسے ایسے لذیذ پلاؤ اور بریانیاں تیار کرتے تھے کہ ان کا ذائقہ دیر تک دوسروں کے دل و دماغ سے محو نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب’’خلق‘‘ دو اشاعتوں کے بعد انہوں نے بند کردیا اور چند اخباروں میں کام کرنے کے بعد انہیں کچھ حاصل وصول نہ ہوا تو انہوں نے ایک ہفتہ وار اخبار’’موچنا‘‘ نکالنے کا ارادہ کیا۔ اس کی سرخیاں کیسی ہوں گی، مضامین کس نوعیت کے ہوں گے، اس کے متعلق انہوں نے لفظوں کے ذریعے سے ایسی تصویر کشی کہ اس مجوزہ پرچے کے کئی شمارے آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے اور دیر تک فضائے آسمانی سے ہم پر، جوسن رہے تھے، موچنوں کی بارش ہوتی رہی۔ ایک بار اور صحافت کے پیشے سے تنگ آئے تو جنگ کا یہ رشتہ نکالا کہ وہ اسے چھوڑ چھاڑ کر چارہ کاٹنے کی مشین لگالیں گے اور مزے کی زندگی بسر کریں گے۔ اس مزے کی زندگی کو انہوں نے تصور کی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے مخصوص انداز میں بیان کرنا شروع کردیا جو میرے ذہن پر مرتسم ہوگیا۔ چنانچہ بہت بعد میں جب کہ میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھا۔ میں نے ایک ریڈیائی ڈرامہ’’جرنلسٹ‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ اس کے مرکزی کردار کا نام باری ہی تھا۔ جب یہ نشر ہوا تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔
ہندوستان کے قریب قریب ہر اردو اخبار نے اس کے خلاف نوٹ لکھے، اس لئے کہ اس سے اخبار کے مالکوں کی توہین ہوتی تھی۔ لیکن ٹریجڈی یہ تھی کہ ان صحافیوں سے اس کے خلاف لکھوایا گیا جن کی ناگفتہ بہ حالت کی عکاسی اس میں کی گئی تھی۔ یہاں پر اس ڈرامے کے چند اقتباس نقل کرنے شاید بے محل نہیں ہوں گے۔ جرنلسٹ باری صحافت چھوڑ کر چارہ کاٹنے کی مشین لگا لیتا ہے اور بہت خوش ہے۔ اس کی خود کلامی ملاحظہ ہو۔
باری:روز ڈیڑھ دو روپے کی آمدن ہو جاتی ہے۔ سارا دن یہاں دکان پر گزارتا ہوں، شام کو ٹھیکے پر چلا جاتا ہوں اور گپیں ہانک کر پھر ٹہلتا ٹہلتا یہاں آجاتا ہوں۔۔۔ خبریں ترجمہ کرنا پڑتی ہیں نہ کاپی جوڑنا پڑتی ہے۔ ٹیلیفون کی بک بک نہ مراسلوں کی بکواس۔ کاتب نہ رائٹر کی سروس۔ واللہ کیا گر بتایا ہے میرے دوست نے۔۔۔ کتنی اچھی زندگی ہے۔۔۔ میری تو یہ مرضی ہے کہ سب ایڈیٹروں کو جو اخباروں میں اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں، یہ گر بتا دوں۔ اپنے اپنے شہر میں ایسی مشین لگوا لیں اور مجھے دعائیں دیں۔‘‘
زندگی بڑی ہموار گزر رہی تھی کہ اچانک دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ اس کی اطلاع باری کو شراب خانے میں ملتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں سویا ہوا صحافی جاگ پڑتا ہے۔ اس کو بہت کوفت ہوتی ہے جب وہ آس پاس بیٹھے ہوئے شرابیوں کی گفتگو سنتا ہے۔ جو بٹیروں سے متعلق ہے، تنگ آکر وہ چلا اٹھتا ہے۔
باری:خاموش! یہ تم نے کیا بکواس شروع کردی ہے۔ تم لوگ واقعی بالکل جاہل ہو۔ یورپ میں ایک ایسی جنگ شروع ہوئی ہے جو کئی ملکوں کو دنیا کے نقشے سے ہمیشہ کے لئے مٹا دے گی۔ لاکھوں کروڑوں آدمی ہلاک ہو جائیں گے۔ دنیا میں ایک طوفان مچ جائے گا۔ اور تم لوگ بٹیروں کی لڑائی کا حال بیان کررہے ہو۔ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟
ایک شرابی:کیا بکتا ہے یہ۔
دوسرا شرابی: (قہقہ لگا کر) میں توکچھ نہ سمجھا۔۔۔ (باری سے) باری۔۔۔ یہ آج توکیسی باتیں لے بیٹھا ہے۔
پہلا شرابی: زیادہ پی گیا ہے۔
دوسرا شرابی:بڑی نامراد چیز ہے۔
باری:تم بکواس کرتے ہو۔ میں بالکل ہوش میں ہوں۔ تم بے ہوش ہورہے ہو۔ جوکچھ میں اس وقت سوچ رہا ہوں، تمہارا فلک بھی نہیں سوچ سکتا۔
پہلا شرابی: ارے واہ رے میرے مولوی۔
باری: تم میری باتوں کا مضحکہ نہ اڑاؤ (ہنستا ہے) مگر یہ تمہارا قصور نہیں، میرا اپنا ہے۔ میں نے اب تک اپنی اصلیت تم سے چھپائے رکھی ہے۔۔۔ تم نہیں جانتے میں کون ہوں اور سیاسی دنیا میں میری کس قدر اہمیت ہے۔
پہلا شرابی: میاں تم رستم ہو، بے بس، اب جانے دو۔ کوئی اور بات کرو۔
باری:تمہیں جب تک میری اصل شخصیت معلوم نہیں ہوگی، تم میرا مضحکہ اڑاتے رہو گے۔ جانتے ہو میں کون ہوں۔ میرا نام عبدالباری ہے۔۔۔ مولانا عبدالباری روزنامہ’’خلق‘‘ کا ایڈیٹر۔
اس آخری جملے میں جو المیہ پوشیدہ ہے، وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ باری مرحوم نے بالآخر صحافت چھوڑ دی تھی اور چارہ کاٹنے کی مشین لگا لی تھی۔ گو یہ مشین ان کی نہیں سرکار برطانیہ کی ملکیت تھی (وہ آخر دنوں میں برٹش انفورمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوگئے تھے) لوگ اکثر ان کا مضحکہ اڑاتے تھے۔ اس لئے کہ ساری عمر انگریز کو گالیاں دینے کے بعد انہوں نے اسی کی نوکری قبول کرلی تھی۔ لیکن وہ یقیناً دل ہی دل میں یہ ضرور پکارتے رہے ہوں گے، ’’تمہیں جب تک میری اصل شخصیت معلوم نہیں ہوگی۔ تم میرا مضحکہ اڑاتے رہو گے۔۔۔ مگر یہ تمہارا قصور نہیں میرا اپنا ہے۔۔۔ میں نے اب تک اپنی اصلیت تم سے چھپائے رکھی!‘‘
یہ میری اپنی تاویل وتعبیر ہے کہ باری صاحب نے اپنی زندگی میں ہمیشہ فرارکے راستے اختیار کئے اور ان راستوں پر بھی انہوں نے ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی روح لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہی اور اس میں قصورسراسر ان کا اپنا تھا۔ وہ بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکر لینے کے لیے آگے بڑھتے تھے لیکن ان کا رخ کسی اور طرف ہو جاتا تھا۔ اور یہ سب کچھ ان کے اپنے زعم میں ہوتا تھا۔ اس ڈرامے میں باری ایک جگہ اپنی رو میں یہ کہتا ہے۔
باری: پہلی جنگ سے لے کر اس جنگ کے آغاز تک کے واقعات کو اگر ہم پیش نظر رکھیں تو یہ معلوم کرکے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مہذب دنیا ذلت کی دلدل میں دھنس گئی ہے۔ سانئس کی ترقی جاری رہی ہے لیکن اخلاقی ذمہ داری کا احساس کم ہوتا چلا گیا ہے۔ نوعِ انسانی جہاں تھی وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ نسلی امتیاز اور مذہبی عداوت بڑھتی گئی ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پہلے جنگ نما صلح پھر صلح نما جنگ۔۔۔ میں پوچھتا ہوں آخر یہ ہماری مہذب دنیا کدھر جارہی ہے۔ کیا ہم پھر جہالت کے زمانے میں جارہے ہیں۔ کیا ایک بار پھر انسان کا خون پانی سے بھی ارزاں بکے گا۔۔۔ کیا پھر ہمارا گوشت پوست دوسری اجناس کی طرح بازاروں میں بیچا جائے گا۔۔۔ ؟کیا ہونے والا ہے؟ کوئی مجھے بتائے کیا ہونے والا ہے۔ بے اصولی نے سیکڑوں اصول اور تفرقہ پردازی نے ہزاروں جماعتیں پیدا کردی ہیں۔ انسان، انسان کے خلاف۔ ملت، ملت سے نبرد آزما۔۔۔ ملک ملک سے ستیزہ کار۔۔۔ یہ ہے انیسویں صدی کی داستان۔‘‘
یہ خیالات برٹرینڈرسل کے ہیں جو میں نے باری صاحب کے مخصوص خطیبانہ انداز میں مکالمے کی شکل میں تبدیل کردیے تھے۔ باری صاحب کا دماغ برٹرینڈرسل کے دماغ سے کم نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس کے اخباروں کے مالکوں سے تنگ کر انہیں کئی بار یہ کہنا پڑا تھا۔
باری: آپ قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ میں قوم کی اور اخبار کی خدمت کرتا ہوں لیکن اس خدمت کا معاوضہ مجھے وقت پر کبھی نہیں ملتا۔ بلکہ یوں کہیے کہ ملتا ہی نہیں۔ چار مہینے میں آپ نے صرف سولہ روپے دیےہیں۔ خدا کا خوف کیجیے۔ میں انسان ہوں پتھر نہیں۔ مجھے بھوک بھی لگتی ہے کبھی کبھی مٹھائی کھانے کو بھی جی چاہتا ہے۔ مجھے آپ نے اس اخبار کا اڈیٹر بنایا تھا۔ سنیاسی یا سادھو نہیں بنایا تھا۔ جو میں نے دنیا تیاگ دی ہو۔‘‘
چار ماہ کے عرصے میں صرف سولہ روپے! ممکن ہے یہ مبالغہ آرائی ہو۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ جب وہ روزنامہ ’’احسان‘‘ میں کام کرتے تھے تو انہیں دفتر سے ردی چرا کر اپنے اخراجات پورے کرنے پڑتے تھے۔ ان دنوں راجہ مہدی علی خاں بھی وہیں ملازم تھے۔ باری صاحب آدمی بڑے مخلص تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ردی بیچ کر کچھ نہ کچھ وصول ہو جاتا ہےتو انہوں نے راجہ کو بھی اس وسیلے سے آگاہ کردیا ۔ باری صاحب طبعاً اعتدال پسند اور محتاط تھے لیکن راجہ دھڑلے کا آدمی تھا۔ اس نے ایک دوبار تو صرف چند بنڈل چرائے۔ اس کے بعد اس نے باری صاحب سے کہا، ’’یہ خوردہ فروشی غلط ہے مولانا۔۔۔ میں کل دو بوریاں لاؤں گا۔ انہیں بھر کر لے جائیں گے۔‘‘
باری صاحب ڈر گئے، لیکن راجہ صاحب نے ان کو اس بڑی ڈکیتی پر آمادہ کرلیا۔ باری صاحب پہرہ دیتے رہے۔ اور راجہ بوریوں میں ردی بھرتا رہا۔ مزدور بلوائے گئے اور انہیں اٹھوا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ راجہ کا بیان ہے کہ اس دن دونوں نے سینما دیکھا تھا۔
راجہ مہدی علی خاں سے روایت ہے کہ ان دونوں کو ایک دفعہ بازاروں میں بھیک بھی مانگنی پڑی تھی۔ اسکیم باری صاحب نے بتائی تھی۔ لوگوں کے آگے دستِ سوال کیونکر دراز کیا جائے گا۔ مسکین اور قابلِ رحم شکل و صورت کیسے بنائی جائے گی۔ اپنا دکھڑا کس انداز سے اور کن الفاظ میں سنایا جائے گا۔ یہ سب باری صاحب نے خود سوچا اور مرتب کیا تھا۔ لیکن جب جھولی پھیلانے کا موقع آیا تو باری صاحب جھینپ گئے اور بمشکل دو ڈھائی آنے جمع کرسکے۔ اس کے برعکس راجہ نے پونے تین روپے اکٹھے کیے۔
یہاں راجہ کے بیان کیے ہوئے ایک لطیفے کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ غالباً انار کلی میں راجہ بھیک مانگ رہا ہے۔ سامنے سے ایک گوجر سر پر دودھ کا بہت بڑا ولٹوہا اٹھائے چلا آرہا تھا۔ راجہ نے جو باری صاحب سے انسانی نفسیا ت پر کچھ لیکچر سن چکا تھا، اندازہ لگایا کہ اسامی مالدارہے۔ اگر میں اس سے اپنی حالت زار بیان کروں گا تو اس کا دل ضرور پسیج جائے گا۔ راجہ کا خیال تھا کہ اس سے کم از کم ایک روپیہ تو ضرور مل جائے گا۔ چنانچہ وہ آگے بڑھا۔ باری صاحب نے جو کچھ بتایا تھا بڑے خلوص کے ساتھ گوجر کو سنایا۔ اس نے راجہ سے کہا، ’’ذرا ہاتھ دینا میرے ولٹوہے کو۔ راجہ نے کافی زور صرف کرکے اس کے سر کا بوجھ اتارنے میں مدد دی۔ جب ولٹوہا اتر گیا تو گوجر نے اپنے تہمد کا ڈب کھولا۔ اس میں کئی نوٹ اور بہت سا کریانہ تھا۔ لیکن اس نے ان میں سے صرف ایک پیسہ نکالا اور راجہ کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور ستم بالائے ستم اس سے یہ کہا، ’’نوجوان اب ولٹوہا رکھوا دو میرے سر پر۔‘‘
اور یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ باری صاحب اور حسن عباس، مفلسی کے زمانے میں پیٹ میں کچھ ڈالنے کے لئے اس پھلوں کی دکان سے رات کے وقت اکثر کیلے اور سیب چرایا کرتے تھے، جس کے اوپر انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا۔ اس میں بجلی کا کنکشن نہیں تھا مگرباری صاحب نے حسن عباس کو اپنا ’’بجلی گھر‘‘ بنانے کی ترکیب سمجھا دی تھی۔ چنانچہ وہ ایک زمانے تک میونسپلٹی کے تار سے اپنا تار جوڑ کر یہ کمرہ روشن کرتے رہے۔
مجھے ایک اور لطیفہ یاد آگیا جو پرانی انار کلی کے اسی کمرے سے متعلق ہے جہاں باری صاحب اور حسن عباس اکٹھے رہتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے۔ جب میں غالباً سات برس کے بعد بمبئی سے آیا تھا۔ اس دوران میں معمولی خط و کتابت رہی تھی۔ حسن عباس مجھے امرتسر کے اسٹیشن پرہی مل گیا تھا۔ ان دنوں شراب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اسپنسر والے ربڑ ٹائر گاڑیوں پر اسے عام بیچتے پھرتے تھے۔ عباس سے بڑی دیر کے بعد ملاقات ہوئی تھی، چنانچہ اس خوشی میں ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ صبح ہی سے شروع کردینی چاہیے تاکہ جذبات گٹھے گٹھے نہ رہیں۔ جو بات کی جائے کھل کے کی جائے۔ یہ فیصلہ ہوتے ہی ہم نے اپنے دل کی چابیاں، جونی واکر کے حوالے کردیں۔
خیال تھا کہ باری صاحب اسٹیشن پر موجود ہوں گے، مگر بقول حسن عباس، وہ حسبِ معمول’’ذلیل الدہر‘‘ نکلے۔ تانگہ لے کر ہم نے انہیں ادھر ادھر تلاش کیا اور آخر ڈھونڈ نکالا۔ وہ اس لئے چھپ گئے تھے کہ انہوں نے میری آمد کے ساتھ ہی شراب کا سیلاب دیکھ لیا تھا اور بند باندھنے میں مصروف تھے۔ میں نے اور عباس نے انہیں بہت لعن طعن کی اور پرانی صحبتوں کا حوالہ دے کر ان کے عارضی زہد کی خوب مٹی پلید کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک دم خم کے خم انڈیلنے پر آمادہ ہوگیے۔
معلوم نہیں ان دنوں ابو سعید قریشی بی۔ اے کا قلعہ سر کرنے کے لیے اپنے آخری حملے کی تیاری کررہا تھا، یا اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا تھا۔ بہر حال وہ ہمیں کسی نہ کسی طرح مل گیا۔۔۔ اس میں اور پرانے سعید قریشی کے باب میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اسی طرح وہ اب بھی عمرخیام کی رباعیاں خریدتا تھا اور نہر کے کنارے، چاندنی رات اور گل رعنا معشوق کے خواب دیکھتا تھا۔ باری صاحب نے تجویز پیش کی کہ اس جرم کی سزا اس کو یہ دی جائے کہ وہ ایک عدد جونی واکر خرید لے۔ مجرم نے یہ سزا قبول کی اور فوراً بھگت لی۔
پرانی انار کلی کے اس تاریخی کمرے میں ہم سب جمع تھے۔ میں، باری صاحب، ابو سعید قریشی، حسن عباس اور عبداللہ ملک ( جو آج کل زیادہ خوبصورت ہے) تھوڑے عرصے کے لیے راجندر سنگھ بیدی بھی آیا۔ باری صاحب حسبِ توفیق صفائی پسند تھے۔ اپنے میز کی جھاڑ پونچھ اور اس کے بناؤ سنگھارمیں کافی وقت صرف کرتے تھے۔ لیکن اس معاملے میں وہ بالکل بچوں کے مانند تھے۔ ناخن کاٹنے کی چھوٹی سی قینچی ہے، وہ بھی اپنے قلمدان کے ساتھ سجاوٹ کے طور پروہاں رکھ دی ہے، ساتھ ہی شیو کرنے کا استرا پڑا ہے۔ کہیں سے گول بٹہ مل گیا ہے تو اسے آپ نے پیپر ویٹ بنا لیا ہے۔ کتابوں کے اوپر کاغذ کے گردپوش چڑھے ہوئے ہیں۔ ان کے اوپر سوئی دھاگا رکھا ہے۔ ایک فائل ہے۔ اس میں مختلف رسالوں سے کاٹی ہوئی تصویریں جمع ہیں۔۔۔
باری صاحب کو قینچی استعمال کرنے کا بہت شوق تھا۔ معلوم نہیں کیوں۔ ہو سکتا ہے اس لئے کہ وہ اخبار کی کاپی خود ہی جوڑا کرتے تھے۔ یہ کام نیوز ایڈیٹروں کے فرائض میں اب بھی داخل ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اخبار کی کاپی جوڑنے سے پہلے ان کو اس اوزار سے کیوں اتنی رغبت تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امرتسر میں روزنامہ’’مساوات‘‘ کے دفتر میں وہ انگلیوں میں قینچی پھنسا کر جب کاپی جوڑنے بیٹھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بہت دل پسند کام شروع کرنے والے ہیں۔
ان کا میز عام طور پر دیوار کے ساتھ لگا ہوتا تھا، اس طرح کہ جب باری صاحب لکھنے بیٹھیں تو دیوار ان کے سامنے ہو۔ لکھتے وقت کوئی روک ان کی آنکھوں کے سامنے ہونی ضروری تھی۔ مجھے یاد ہے، ایک بار میں نے گھر میں اپنے میز کا رخ بدل دیا۔ باری صاحب کو کچھ لکھنا تھا۔ کرسی پر بیٹھے تو بے چینی محسوس کرنے لگے میں نے وجہ دریافت کی تو کہا، ’’جب تک میری آنکھوں کے سامنے کوئی روک نہ ہو، میں نہیں لکھ سکتا۔‘‘ اور یہ کہہ کرورلڈ اٹلس اٹھائی اور اپنے سامنے رکھ لی۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے، لیکن میں مجبور ہوں، پرانی انار کلی کے کمرے سے نکل کر خدا معلوم کہاں جارہا ہوں۔ لیکن آپ مجھے معاف کردیجیے۔ جو بات ذہن میں ابھرتی ہے، میں اسی وقت قلم بند کردیتا ہوں کہ بھول نہ جاؤں۔۔۔ ابھی ابھی جب میں نے تصور میں انہیں لکھتے دیکھا تووہ اپنے دانت رگڑ رہے تھے۔ یہ باری صاحب کی عادت تھی۔ لکھنے کے دوران میں وہ اپنے دانت ضرور کٹکٹاتے تھے۔ جیسے غصے میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گول گول حروف لکھتے تھے۔۔۔ اتنے گول کہ بعض اوقات میرے لئے ان کی عبارت کے اکثر لفظ ایک دوسرے کے توام ہوتے تھے۔
پرانی انار کلی کے اس تاریخی کمرے میں ان کے میز کے ساتھ والی دیوار پر وہ تاریخی گروپ بھی آویزاں تھا، جو ہم نے امرتسر میں اتروایا تھا۔ اس میں عباس ہے، میں ہوں، باری صاحب ہیں اور ابو سعید قریشی بھی موجود ہے۔ باری صاحب نے اس فوٹو کے نیچے شاید ’’امرت سراسکول آف تھاٹ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ باری مرحوم کو بہت عزیز تھا۔ ’’ملاپ‘‘ یا ’’پرتاپ‘‘ کے دفتر میں کام کرتے ہوئے، اپنا کوٹ کھونٹی سے لٹکا کر جب آپ سگرٹ لینے کے لیےباہر نکلے تھے اور سیدھے برما جا پہنچے تھے تو اپنے ساتھ یہ گروپ لیتے گیے تھے۔
میں جب اس کمرے میں جو عباس اور باری صاحب کا گھر تھا، داخل ہوا تو سب سے پہلے باری صاحب نے مجھے یہ گروپ دکھایا اور اپنے مخصوص انداز میں جس میں بچوں کی تالیاں پیٹنے والی خوشی گھلی ہوئی تھی، کہا، ’’خواجہ صاحب۔ یہ دیکھئے۔۔۔‘‘ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ کہہ سکے۔ لیکن ان کے چہرے کے تمام خدوخال اپنی سیاہ قبا اتار چکے تھے اور مسکرا رہے تھے۔
مرحوم کو مجھ سے بہت محبت تھی۔ ان کو مجھ پر ناز بھی تھا مگر اس کا اظہار انہوں نے میرے سامنے کبھی نہیں کیا۔ اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی سے اس انداز سے کہا ہو کہ منٹو میرا بنایا ہوا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ مجھے تحریر و تصنیف کے راستے پر ڈ النے والے وہی تھے۔ اگر امرتسر میں ان سے میری ملاقات نہ ہوتی تو ہوسکتا ہے کہ میں ایک غیر معروف آدمی کی حیثیت میں مرکھپ گیا ہوتا۔ چوری ڈکیتی کے جرم میں لمبی قید کاٹ رہا ہوتا۔
میں اور عباس بقول باری صاحب کافی’’گٹ‘‘ تھے۔ ایک شراب کا دوسرا اتنی طویل مدت کے بعد ملنے کا نشہ، ہم سب جھوم رہے تھے۔۔۔ ابو سعید قریشی کی بوتل کھل گئی اور دور شروع ہوگئے۔ باری صاحب پی کر بہت دلچسپ ہو جاتے تھے۔ وہ جو کپڑوں کے بجائے جزدان میں لپٹے اور کرسی کے بجائے رحل پر بیٹھے ہونے کی تصویر پیش کیا کرتے تھے، شراب کے چند گھونٹوں کے بعد ایک مختلف شکل اختیار کرلیا کرتے تھے۔ ان کی طبیعت میں وہ مزاحیہ اور فرحیہ عنصر جو اکثر شرعی پجامہ پہنے رہتا تھا، بے ریش و بروت ہو کرسامنے آ جاتا تھا۔ اس وقت جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ ایسے وقتوں میں کسی اور کو بولنے کا موقع بھی وہ شاذونادر ہی دیتے تھے۔
راجندر سنگھ بیدی، روسی ناول نویس شولوخوف کے’’اینڈکویٹ فلوز دی ڈون‘‘ کے متعلق بات چیت کررہا تھا۔ یہ ناول ہم میں سے کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا لیکن بیدی کچھ اس انداز سے گفتگو کررہا تھا کہ مجھے خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا اور یہ ظاہر کرنا پڑا کہ ناول میرا پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا تو بیدی بوکھلا سا گیا۔ باری صاحب تاڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور شولوخوف کی ناول نویسی پر ایک لیکچر شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیدی کو تھوڑی دیر کے بعد بڑے بینڈے پن سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس نے شولوخوف کا زیرِ تبصرہ ناول نہیں پڑھا، میں نے بھی حقیقت کا اظہار کردیا۔ باری صاحب خوب ہنسے اور آخر میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ شولوخوف کا نام انہوں نے پہلی مرتبہ بیدی صاحب کے منہ سے سنا ہے اور اس کی ناول نویسی پر جو لیکچر انہوں نے پلایا ہے، ان کی دماغی اختراع ہے۔۔۔ راجندر سنگھ بیدی کو بہت دور جانا تھا، اس لئے وہ اجازت لے کر چلا گیا۔
غالباً دسمبر کے دن تھے۔ سخت سردی تھی۔ میں چونکہ ایک مدت تک باہر رہا تھا، اس لئے یہ سردی خاص طور پر مجھے بہت زیادہ محسوس ہورہی تھی۔ لوہے کی انگیٹھی موجود تھی۔ باری صاحب نے فوراً آگ کا انتظام کردیا۔ دروازہ کھول کر باہرگئے اور تھوڑی سی لکڑیاں لے آئے۔ ان کو انگیٹھی میں قرینے سے رکھ کر انہوں نے جونی واکر کی بوتل کھولی اور کچھ چھینٹے لکڑیوں پر مارے پھر’’زرتشت، زرتشت‘‘ کہتے ہوئے ان کو ماچس دکھائی۔ جب آگ سلگ اٹھی تو سجدے میں چلے گئے۔
سجدے کا ذکر آیا تو مجھے یاد آگیا کہ وہ بڑے سجدہ گزار تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ امرتسر میں پانچ کے بجائے کبھی آٹھ، کبھی دس وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ وہ بیٹھک جہاں ہم بیٹھا کرتے تھے، اس کا نام انہوں نے’’دارالاحمر‘‘ رکھا ہوا تھا۔ یہاں جب بھی ان کو نماز ادا کرنے کی حاجت محسوس ہوتی، بی بی جان (میری والدہ مرحومہ) کو آواز دیتے اور پانی کا لوٹا اور جانماز منگوا لیتے۔ یہ تو ان کے من کی موج کا قصہ ہے۔ لیکن جب کبھی ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی اور میں یا عباس اس کو پکڑ لیتے تووہ فوراً اپنے کان اینٹھنا شروع کردیتے تھے اور سہو کے لئے ایک دو سجدے بڑے خلوص کے ساتھ ادا کرتے تھے۔
مجھے ایک اپنا سجدہ یاد آگیا۔ جو ابھی تک میرے ماتھے میں رڑک رہا ہے۔ یہ بھی امرتسر ہی کی بات ہے۔ باری صاحب کو میری شراب نوشی پسند نہیں تھی، میں سمجھتا تھا کہ وہ بنتے ہیں۔ ایک شام کو وہ میرے ساتھ تھے، سیر کرتے کرتے ریلوے اسٹیشن کے ریفریشمنٹ روم میں پہنچ گئے۔ میں نے بیرے کو سمجھا دیا کہ وہ میرے لئے وسکی لائے اور باری صاحب کے لئے جنجر، جس میں ایک پیگ ’جن‘ کا شامل ہو۔ باری صاحب کو کوئی نہ کوئی اور خاص طور پر پیٹ کا عارضہ ضرور لاحق رہتا تھا میں نے ان سے کچھ پینے کے لئے پوچھا تو کہنے لگے، ’’نہیں میں کچھ نہیں پیوں گا۔ میرا معدہ خراب ہے۔‘‘
باری صاحب ضدی نہیں تھے۔ تھوڑی سی لیکچر بازی کے بعد انہیں کسی بات پر بھی آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ میں نے ادرک کے فائدے بتائے اور کہا کہ جنجر کا پانی ان کے معدے کی تمام خرابیاں دور کردے گا۔ آپ راضی ہوگئے۔ بیرے نے ان کے سامنے بوتل گلاس میں انڈیلی۔ میں نے وسکی پینا شروع کردی۔ اور باری صاحب نے جنجر، جس میں ’جن‘ شامل تھی ۔ یہ محلول جب ان کے حلق سے اترا تو ان کو فرحت حاصل ہوئی، میں نے اپنی وسکی ختم کرکے جب دوسرا پیگ طلب کیا تو انہوں نے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہ ایک جنجر اور پئیں گے۔ بیرا اسی قسم کا ایک اور مشروب تیار کرکے لے آیا۔
باری صاحب کو بہت لطف آیا۔ مجھ سے کہا، ’’ادرک کے فائدے میں نے طب کی کسی کتاب میں پڑھے تھے۔ واقعی بڑے معرکے کی چیز ہے۔ وہ بوجھ سا وہ الجھن سی جو میں صبح سے محسوس کررہا تھا، بالکل غائب ہے۔۔۔‘‘ میں ہنس پڑا۔ اس کے بعد مجھے ان کو بتانا پڑا کہ معرکے کی چیز کون سی تھی۔ وہ بہت خفا ہوئے بلکہ یوں کہیے کہ ان کو بہت دکھ ہوا۔ میری طفلانہ حرکت انہوں نے معاف تو کردی مگر میں محسوس کررہا تھا کہ انہیں سخت روحانی کوفت ہوئی ہے۔ چنانچہ میں نے ان سے صدق دل سے وعدہ کیا کہ میں آئندہ کبھی شراب نہیں پیوں گا ۔ بیرا بل لایا تو باری صاحب نے پنسل سے اس پر اقبال کا یہ مصرعہ لکھ دیا۔
یہ ارب درونِ سینہ دل باخبریدہ
مجھ پر اس واقعے کا بہت اثر ہوا، اتنا اثر کہ جب میں رات کو گھر لوٹا تو گلی کے فرش پر میں نے سجدہ کیا اور خدا سے دعا مانگی کہ وہ مجھے اپنے ارادے میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس گناہ کو جو مجھ سے سرزد ہوا، معاف کردے۔ اس سجدے سے طبیعت کا بوجھ تو ہلکا ہوگیا مگر ایک اور بوجھ اس پر لد گیا کہ اب میں پی نہیں سکتا تھا۔ کئی دن گزر گیے، ہر وقت اداسی چھائی رہتی تھی لیکن دل کو پرچانے کے لیے یہ بات موجود تھی کہ میں اپنے وعدے پر قائم ہوں اور ایک لعنت سے بچنے کی کامیاب کوشش کررہا ہوں۔
ایک دن شام کو باری صاحب آئے، میں کھڑکی میں بیٹھا تھا۔ انہوں نے باہر گلی میں کھڑے کھڑے میرا مزاج پوچھا، میں نے مسکرا کر کہا، ’’کیا پوچھتے ہیں۔۔۔ بس ٹھیک ہے!‘‘باری صاحب نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور کہا، ’’میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ جب وہ آئے تو ان کے پجامے میں شراب کا ادھا اڑسا ہوا تھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، میں نے ان سے کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے سننے سے انکار کردیا اور بوتل کھولنا شروع کردی۔ اتنے میں عباس آگیا۔ باری صاحب کے کہنے پر سب دروازے بند کردیے گئے۔ اندر سے روٹی منگوائی گئی جو کسی نے بھی نہ کھائی۔ سالن وغیرہ الگ رکھ لئے گئے اور گلاس چھوڑ کر باقی برتن واپس بھیج دیے گئے۔ عباس کنویں سے لوٹے میں پانی لایا اور ہم سب نے پی۔۔۔ وہ سجدہ جو میں نے گلی کے ٹھنڈے فرش پر اس رات خدا کے حضور ادا کیا تھا، میری پیشانی میں تڑپتا رہا۔
ہم پی رہے تھے جو حسن عباس نے چھیڑنے کی خاطر باری صاحب سے کہا، ’’آپ کی یہاں سب عزت کرتے ہیں۔ بی بی جان آپ کو نمازی اور پرہیز گار کی حیثیت سے جانتی ہیں۔ ان کے دل میں آپ کا اتنا احترام ہے۔۔۔ اگر وہ یہاں آجائیں تو کیا ہو؟‘‘باری صاحب نے کہا، ’’میں کھڑکی کھول کر باہر کود جاؤں گا۔ اور پھر کبھی ان کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا۔‘‘ باری صاحب ہمیشہ اپنی زندگی کی کوئی نہ کوئی کھڑکی کھول کر باہر کود جاتے رہے۔ یہ کھڑکی کھلی رہتی مگر وہ پھر کبھی اس کو اپنی شکل نہ دکھاتے۔ کھڑکی کھول کر باہر کود جانے سے میں کسی تضحیک کا ناتا نہیں جوڑ رہا۔ اصل میں وہ نظام جو انگریزوں سے متعلق تھا، اور جس میں باری مرحوم نے انگوٹھا چوسنے سے لے کر قلم چوسنے تک اور قلم چوسنے سے لے کر اپنا خون چسانے تک کے تمام مراحل افتا ں و خیزاں طے کیے اور اس کے بعد وہ نظام جس میں انہوں نے اقبال مرحوم کی ان تیغوں کے سائے میں جو ریڈیو پاکستان نے اپنے پروگراموں میں بے نیام کی تھیں، اپنی زندگی کی شام کے آخری دھندلکوں کو سنوارنے کی کوشش کی، ایسی بے شمار کھڑکیوں سے پر تھا۔ جن کے کھٹکے باہر کود جانے کی ہلکی سی خواہش پر بھی خود بخود کھل جاتے تھے۔
پھر دیکھیے، میں کہاں کا کہاں پہنچ گیا۔ بات پرانی انار کلی کے اس کمرے کی ہورہی تھی جہاں دسمبر کی خون منجمد کردینے والی سردی میں ہم پی رہے تھے، اور باری صاحب تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد باہر جاتے اور انگیٹھی کی آگ برقرار رکھنے کے لئے کہیں سے ایندھن لے آتے تھے۔ بہت دیر کے بعد ملنا ہوا تھا، اس لئے وقت گزرنے کا قطعاً احساس نہیں تھا۔ باری صاحب زرتشت کی ’’اگیاری‘‘ کے لئے کتنی مرتبہ ایندھن لائے، یہ بھی یاد نہیں، لیکن ابھی تک یہ ضرور یاد ہے کہ جب میں صبح کمرے سے باہر نکلا تو بازار کی طرف لکڑی کا جو شکستہ سا جنگلہ تھا، بالکل غائب تھا۔ اس کی راکھ البتہ کمرے میں انگیٹھی کے اندر موجود تھی۔
عباس نے باری صاحب کو دھڑکایا، کہ اگر مالک مکان کو علم ہوگیا کہ وہ جنگلہ جلا جلا کر آگ تاپتے رہے ہیں تو وہ ’’کباب‘‘ ہو جائے گا اور بیک بینی ودوگوش ان کو نکال باہر کرے گا۔ باری صاحب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں، بہت ڈرپوک تھے۔ عباس نے جب ان کو اس غیر واجب حرکت سے آگاہ کیا تو وہ کھسیانے سے ہوگئے۔ بات کوہنسی میں اڑانے کی بھونڈی سی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آخرمیں عباس سے کہا، ’’ہم اس کو خبر ہونے سے پہلے ہی نکل جائیں گے۔‘‘
لیکن مصیبت یہ ہے کہ نکل جانے سے پہلے ان کے علاوہ ہر ایک کو خبر ہو جاتی تھی۔ وہ جب ملاپ یا پرتاپ کے دفتر سے کھونٹی سے اپنا کوٹ لٹکا کر سگرٹ لینے کے لیےباہر نکلے اور برما پہنچ گئے تو ان کا یہی خیال تھا کہ کسی کو خبر تک نہ ہوگی، مگر جاننے والے جانتے تھےکہ وہ کدھر کا رخ کئے ہیں۔
باری صاحب نے مختلف چھوٹے بڑے شہروں کی رسدگاہوں میں اپنی قسمت کے ستاروں کا مطالعہ کیا، لیکن گھوم پھر کر آخر انہیں لاہور ہی کی رسدگاہ میں آنا پڑا جو کسی زمانے میں عرب ہوٹل میں تھی اور بعد میں نگینہ بیکری میں اپنے جملہ ساز و سامان کے ساتھ اٹھ آئی تھی۔ یہاں اور وہاں بڑے بڑے مہندس اور ستارہ شناس جمع ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ ان کی زندگی میں اپنے ستاروں سے آگے دوسرے جہانوں میں چلے گئے اور کچھ اپنے بے نور ستاروں کے لئے بلند نشینوں کی چمک دمک بھیک کے طورپر مانگتے رہے۔
باری صاحب کو جب کبھی میں نے ان محفلوں میں دیکھا، مجھے یوں محسوس ہواکہ وہ گرم گرم کالی کوفی کا پیالہ ہیں جس میں سے بھاپ کا دھواں اٹھ رہا ہے جو صرف چند لمحوں کے لئے فضا میں لہراتا، بل کھاتا ہے اور پھر اس کی نمی کی آغوش میں سو جاتا ہے۔۔۔ ان محفلوں میں، ان کنکنی، گرم و سرد صحبتوں میں ان کے وزنی سر کی ہنڈیا سے طرح طرح کے ذہنی ماکولات کی خوشبودار بھاپ اٹھتی مگر ان ہوٹلوں اور بیکریوں کی کثیف فضا میں تھوڑی دیر اپنی نزاکت اور ندرت پر اترا اترا کر وہیں سو جاتی۔
باری صاحب’’باتوں کے بادشاہ‘‘ تھے۔ کوچہ وکیلاں کے’’دارالاحمر‘‘ میں جب وہ ولی اللہ (گاؤ تکیے کووہ ولی اللہ کہا کرتے تھے) کا سہارا لے کر بیٹھتے تو دلچسپ باتوں کے دریا بہنے شروع ہو جاتے تھے۔ ان دنوں سرور صاحب ( آفاق کے مدیر) بھی کبھی کبھی تشریف لاتے تھے۔ آپ میری حرکات و سکنات میں گہری دلچسپی کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ باری صاحب کی طرح وہ بھی میری حوصلہ افزائی کیا کرتے اور باتوں باتوں میں مجھے یقین دلاتے تھے کہ میں بہت جلد تحریرو تصنیف کے قابل ہو جاؤں گا۔
امرتسر کا ذکر آیا تو مجھے ایک دلچسپ لطیفہ یاد آگیا۔ میں، باری صاحب، حسن عباس اور ابو سعید قریشی اپنی محفل میں کسی اور کی شمولیت پسند نہیں کرتے تھے۔ کامریڈ فیروز الدین منصور سے ہم سب کی صاحب سلامت تھی۔ کبھی کبھی وہ بھی دارالاحمر تشریف لے آتے تھے مگر ان کی تشریف آوری ہم سب کو ناگوار معلوم ہوتی تھی۔ باری صاحب ازراہ مذاق کہا کرتے تھے کہ کامریڈ صاحب پوٹاشیم پرمگنیٹ سے بم بناتے ہیں۔ عباس ان کو فراڈ الدین منصور کہتے تھے۔ کچھ دیر ہم ان کا آنا جانا برداشت کرتے رہے، آخرباری صاحب کو ایک ترکیب سوجھی۔ کامریڈ ایف ڈی منصور کمرے میں داخل ہوئے تو باری صاحب نے بڑے بھونڈے طریقے سے آنکھ مار کر عباس سے کہا، ’’خواجہ صاحب۔۔۔ چلیے، پھر کہیں دیر نہ ہو جائے‘‘ اور اٹھ کر کھڑکیاں بند کرنا شروع کردیں۔۔۔ منصور صاحب جو بیٹھنے کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ، ہمارے ساتھ چل پڑے۔ بازار میں نکل کر باری صاحب نے ان سے معذرت طلب کی اور ہم ایک چکر کاٹ کر پھر دارالاحمرواپس آگئے۔۔۔ باری صاحب بہت خوش تھے، اتنے خوش کہ وہ دیر تک ہنس ہنس کو دوہرے ہوتے رہے۔
باری صاحب بہت معمولی معمولی باتوں پر خوش ہو جایا کرتے تھے۔ ان کی خوشی جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں، بالکل بچوں کی سی خوشی ہوتی تھی، اس میں تالیاں پیٹنے کا شور ہوتا تھا۔ ان کی توند بڑھی ہوئی تھی ( جس کے متعلق وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے) جب وہ ہنستے تھے تو یہ بھی ہنسا کرتی تھی۔
بہت مخلص آدمی تھے، اتنے مخلص کہ انہوں نے اپنی آنے والی موت سے بھی کوئی لڑائی جھگڑا نہ کیا۔ اصل میں وہ لڑائی بھڑائی سے ہمیشہ گھبراتے تھے۔ ان کی طبیعت صلح کل تھی۔ دل کا عارضہ ان کو بہت دیر سے تھا مگر اس کا علاج انہوں نے جب بھی کیا، مصالحت آمیز طریقے سے کیا۔ اس کی مدافعت میں ان سے کبھی جارحانہ قدم نہ اٹھا۔
مجھے یاد ہے۔ مرنے سے دو روز پہلے میری ان کی مڈبھیڑ میوروڈ پر ہوئی۔ بوہڑ والے چوک سے دائیں ہاتھ کو ان کا تانگہ جارہا تھا، مجھے دیکھا تو اسے رکوا لیا۔ میں ان سے ناراض تھا۔ سخت ناراض۔ اس لئے کہ وہ دور دور رہتے تھے۔ انگریزوں کے ہائی کمشنر کے دفتر میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد وہ کچھ ایسے بجھ گئے کہ اپنے بے تکلف دوستوں سے اگر ان کی ملاقات محض اتفاقیہ طور پر ہو جاتی، تو عجیب و غریب سا حجاب محسوس کرتے۔ میں ان کے پاس پہنچا تووہ تانگے سے اترے۔ مجھ سے مصافحہ کیا اور میری خیریت دریافت کی۔ یہ رسوم مجھے بہت بری معلوم ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا، ’’باری صاحب! آپ بہت ذلیل ہوگئے ہیں۔ اتنے ذلیل کہ آپ نے مجھ سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔ آپ نے انگریز کی نوکری کیا کی ہے، اپنا سارا کیریکٹر تباہ کرلیا ہے۔‘‘
میری لعن طعن کے جواب میں گھٹی گھٹی، بیمار بیمار سی مسکراہٹیں ان کے اودے ہونٹوں پر بکھرتی رہیں۔ ان کے چہرے کا رنگ کسی قدر زرد تھا اور آواز نحیف تھی، میں نے ان سے پوچھا، ’’خیر چھوڑیے اس قصے کو یہ بتائیے آپ کا مزاج کیسا ہے؟‘‘
میرے اس سوال کے جواب میں انہوں نے بڑی سنجیدگی سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ ایک عرصے سے دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، سیکڑوں علاج کرچکے ہیں، مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ میو روڈ پرکوئی ہومیو پیتھ ہے، اب وہ اس سے رجوع کررہے ہیں۔ میں نے ان سے ازارہِ مذاق کہا، ’’یہ رسد گاہ باقی رہ گئی تھی جہاں آپ اپنے ستاروں کا مطالعہ فرمانے جارہے ہیں۔۔۔ چھوڑیئے باری صاحب، آپ کو کوئی عارضہ وارضہ نہیں۔ آپ کو صرف وہم کی بیماری ہے جس کا علاج، سنا ہے لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا۔۔۔ آپ زیادہ کھاتے ہیں، اس لیے آپ کا معدہ خراب رہتا ہے، تنجیر کے باعث جو بخارات اٹھتے ہیں آپ کے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، بس اتنی سی بات ہے جسے آپ نے بتنگڑ بنا رکھا ہے!‘‘
میری بات ان کے دل کو لگی ( ان کے دل کو ہر بات لگ جاتی تھی) کہنے لگے، ’’میرا خیال ہے، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ تبخیر کی شکایت تو مجھے ہے۔۔۔ اور بعض ڈاکٹروں کی تشخیص بھی یہی کہتی ہے۔‘‘ بہت دیر تک میری ان کی باتیں ہوئیں۔ مجھے انہوں نے بتایا کہ وہ تاریخ عالم ( کئی جلدوں میں ایک مبسوط کتاب جو مرحوم مکمل نہ کرسکے) دوبارہ پھیلا کر لکھ رہے ہیں اور ترکی زبان میں پنجابی الفاظ تلاش کررہے ہیں۔
مرحوم کو پنجابی زبان سے بہت محبت تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ پنجابی کو پنجاب کی قومی زبان بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ غالباً سکھوں کے اخبار’’اجیت‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ جہاں بیٹھتے تھے اپنی نت نئی اسکیموں کا ذکر چھیڑ دیتے تھے، جن کے ذریعے سے وہ اردو کے بجائے پنجابی رائج کرنا چاہتے تھے۔ ہر ملنے والے کو تلقین کرتے تھے کہ وہ اردو کے بجائے اپنی مادری زبان پنجابی میں لکھا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف وہی زبان جاندار ہوتی ہے جس میں دی ہوئی گالی وز ن دار ہو اور انفرادیت رکھتی ہو۔ ان کا ایمان تھا کہ دنیا کی کوئی زبان گالیوں کے معاملے میں پنجابی کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔۔۔ اور پرلطف بات یہ ہے کہ خود باری صاحب نے اپنی زندگی میں ایک سطر بھی پنجابی زبان میں نہ لکھی۔
تقسیم سے پہلے انار کلی میں ایک کیلاش ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ اس میں’’بار‘‘ بھی تھی۔ مقدمات کے سلسلے میں جب لاہور آتا تو چودھری نذیر کے ساتھ اس ہوٹل میں دو تین محفلیں ضرور جمتی تھیں جن میں باری صاحب کو شریک ہونے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ ہم بالائی منزل پر چلے جاتے اور وسکی کے دور شروع ہو جاتے تھے۔ ایک سکھ بیرا تھا۔ باری صاحب جب دو پیگ پی لیتے تو اس سے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو شروع کردیتے۔ اس وقت ان کے دل و دماغ میں صرف پنجابی زبان کی ترویج کا خیال ہوتا۔ لیکن چار پیگ کے بعد وہ کانٹا بدل کر اردو کی طرف آجاتے اور اس کی عالمگیری کے متعلق تقریر شروع کردیتے اور کہتے کہ پنجابی غنڈوں اور لفنگوں کی زبان ہے، بہت غیر مہذب ہے جو سماعت پر گراں گزرتی ہے۔ پانچویں اور چھٹے پیگ کے دوران میں اردو سے ان کی والہانہ محبت سکڑتی رہتی۔ جب پانچواں پیگ اپنا کام کرجاتا تووہ فارسی کی مٹھاس کے گرویدہ نظر آتے۔ ٹھیٹھ ایرانی لہجے میں فارسی بولنے کی کوشش کرتے، مگر چھٹا اور ساتواں پیگ انہیں پشتو کے پتھروں میں لڑھکانا شروع کردیتا۔ آٹھویں اور نویں پیگ میں پنجابی، اردو، فارسی، پشتو اورعربی ان کے دماغ میں، کاک ٹیل بن کر چھلکنے لگتی۔
مرحوم بولنے اور اپنی آواز آپ سننے کے بہت شائق تھے۔ اتنی ہمت نہیں تھی کہ کسی جلسے میں تقریر کرتے، لیکن یار دوستوں کی محفل میں اپنا شوق پورا کرلیا کرتے تھے۔ دہلی مسلم ہوٹل میں سے ایک دفعہ آپ ایک چمچہ اڑا لائے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ جب ہم انار کلی کے وسط میں پہنچے تو آپ نے یہ چمچہ نکال کر بیلچے کے مانند اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور’ چپ راست‘ کرتے ایک دکان کے تھڑے پرچڑھ گئے اور خاکساروں کی تحریک پر ایک عدد تقریر اگل کے رکھ دی۔ بے شمار آدمی جمع ہوگیے لیکن باری صاحب جوش و خروش کے ساتھ بولتے رہے۔ اس کے بعد ہم سب نے چوک میں کھڑے ہو کر علامہ مشرقی زندہ باد کے نعرے لگائے۔ موتیے کے ہار خریدے اور اپنے اپنے گلے میں ڈال لیے۔ باری صاحب نے ایک ہار اپنی کلائی کے گرد لپیٹ لیا اور مجھ سے کہا، ’’خواجہ صاحب، چلو ہیرا منڈی چلیں۔۔۔ موتیے کے ان پھولوں کی خوشبو کا رخ اسی طرف ہے۔‘‘
ہم سب ہیرا منڈی پہنچے۔ باری صاحب کے سرور خوب گٹھے ہوئے تھے۔ بہت دیر تک ہم اس منڈی کی تنگ وتار گلیوں میں گھومتے رہے۔ اس دوران میں باری صاحب نے کئی پٹھان ٹکھیائیوں سے پشتو میں بات چیت کی۔ ایک ایسی ہی ٹکھیائی سے مصروف گفتگو تھے کہ ان کی جان پہچان کا ایک آدمی ادھر سے گزرا۔ باری صاحب نے آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیا، اس آدمی نےپوچھا، ’’مولانا یہاں کیا ہورہا ہے؟‘‘باری صاحب نے پٹھان کی طرف دیکھا اور جواب دیا، ’’اس لڑکی سے سیاستِ حاضرہ پر تبادلہ خیال کررہا تھا۔‘‘
صبح عباس نے باری صاحب کو رات کے تمام واقعات سنائے۔ خوب نمک مرچ لگا کر۔ اس انداز میں کہ وہ ندامت محسوس کریں۔ باری صاحب نے مجھ سے تصدیق چاہی تو میں نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا، ’’باری صاحب۔ یہ واقعہ ہے کہ آپ نے کل رات بڑی ذلیل حرکتیں کیں۔ یہ آپ کی شایان شان نہیں تھیں۔‘‘ باری صاحب بہت نادم ہوئے۔ اس قدر نادم کہ آپ نے فوراً وضو کرکے نماز پڑھنا شروع کردی۔
باری صاحب کو مصلح بننے کا شوق تھا، ان کی دلی آرزو تھی کہ وہ ایک بہت بڑے رہ نما بن جائیں۔ ہر چوک میں ان کا بت نصب ہو۔ وہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیں کہ آنے والی تمام نسلیں انہیں یاد رکھیں، مگر اس کے لئے جرات اور بے باکی کی ضرورت تھی۔ اسی قسم کی جرأت اور بے باکی جس کا مظاہرہ وہ کبھی کبھی پی کر ہیرا منڈی کی گلیوں میں پٹھان ٹکھیائیوں سے سیاستِ حاضرہ پر تبادلہ خیالات کے دوران میں کیا کرتے تھے لیکن جب کبھی ان سے ایسی جرأت اور بے باکی سرزد ہو جاتی تووہ وضو کر کے نماز پڑھنا شروع کردیتے اور اس کی آلائشوں سے خود کو پاک صاف کرلیتے۔
وہ قینچی کو انگلیوں میں پھنسا کر اپنے خیالات و افکار کے زرد زرد کتابت شدہ کاغذوں کو کاٹ کاٹ کر ساری عمر اپنی زندگی کی کاپی جوڑتے رہے۔ مگر اسے پتھروں پرکبھی منتقل نہ کرسکے۔ شاید اس خیال سے کہ وہ ان کے بوجھ تلے پس جائیں گے۔ ان کو ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کے پِس جانے کا خدشہ لاحق رہتا تھا۔ حالانکہ وہ تمام کو پیس کر سفوف بنا دینا چاہتے تھے اور اس سفوف کو نسوار کے طور پر استعمال کرنے کے خواہش مند تھے۔
وہ انگریزوں کے سخت دشمن تھے۔ لیکن یہ طرفہ تماشا ہے کہ جب انگریز چلا گیا تووہ اسی کے نوکر ہوگئے۔ انہوں نے’’کمپنی کی حکومت‘‘ جیسی باغیانہ کتاب لکھی۔ لیکن اس کمپنی کے سابق ٹھیکہ داروں کی ملازمت میں انہوں نے اپنی زندگی کے چند آخری اور بڑے قیمتی برس گزارے۔
باری مرحوم سے میں اپنی آخری ملاقات کا ذکر کررہا تھا، جب وہ کسی ہومیو پیتھ سے اپنے دل کے عارضے کا علاج پوچھنے جارہے تھے۔ اس دل کا جو خلوص سے معمور تھا۔۔۔ جو اس قدر شریف تھا کہ اس نے باری صاحب کی بزدلی کا ساتھ دیا اور دھڑکنا بند کردیا۔
میں نے انہی دنوں میں آغا حشر کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا( جو اس کتاب میں شامل ہے) اس میں جیجے کے ہوٹل میں باری صاحب سے پہلی بار ملاقات کرنے کا ذکر بھی تھا۔ باری صاحب نے یہ مضمون پڑھ کر مجھے ایک خط لکھا تھا جس میں امرتسر کے ان ایام کی یاد تازہ کی تھی جب میں، ابو سعید، عباس، عاشق فوٹو گرافر اور باری صاحب مل کر بالکل خبطیوں کی طرح بازاروں میں گھوما کرتے تھے۔۔۔ بے مطلب، بے مقصد۔۔۔ جب ہم نے ’’فری تھنکرز‘‘ جیسی اوٹ پٹانگ جماعت بنا ڈالی تھی۔ اس کے قواعد و ضوابط میں نمبر ایک پر یہ چیز تھی کہ فری تھنکر جو بھی چاہے کرے، کسی کو اس کا استحقاق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اس سے اس کے کسی فعل کے متعلق استفسار کرے۔۔۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوا کہ ہم چاروں جارہے ہیں کہ اچانک باری صاحب موڑ مڑے اور ہم سے جدا ہوگئے۔ بڑی گرما گرم باتیں ہورہی ہیں کہ اچانک عباس خاموش ہوگیا اور واپس چلا گیا۔
اس خط کے بارے میں باری صاحب سے مختصر سی گفتگوہوئی۔ میں نے باری صاحب سے کہا کہ یوں تو انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا حافظہ بہت تیز ہے، لیکن وہ ان ایام کی بہت سی باتوں کا تذکرہ بھول گئے ہیں۔ باری صاحب نے نحیف آواز میں معذرت چاہی اور کہا کہ انہوں نے یہ خط بڑی روا روی میں لکھا ہے۔ حکایت بہت دراز تھی لیکن انہیں سکونِ قلب میسر نہیں تھا۔ انہوں نے سکون قلب کا ذکر کیا تو میں پھر ان کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ کیوں اپنے قلب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جو اچھا بھلا ہے۔۔۔ لیکن تیسرے روز صبح چھ بجے چائے کی پہلی پیالی پی کر میں نے سگریٹ سلگایا اور تازہ ’امروز‘ کھولا تو پہلے صفحے پر ہی سرخی نظر آئی کہ اشتراکی ادیب باری کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔ کچھ عرصے کے لئے میں بالکل گُم صم ہوگیا۔ میں نے پھر خبر کی طرف دیکھا۔ تین کالمی سرخی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کاپی جوڑتے وقت یہ سرخی باری صاحب نے قینچی سے کاٹ کر خود اپنے ہاتھوں سے بڑے قرینے کے ساتھ جمائی ہے۔
اشتراکی ادیب باری، میرا دوست، میرا رہ نما، تمام عمر اپنی زندگی کی جلی اور خفی سرخیاں جماتا رہا، لیکن افسوس کہ وہ ان کے نیچے وہ مضمون نہ لکھ سکا جو اس کے وزنی سر میں پرورش پاتے تھے اور بھاپ بن کر لاہور کی بیکریوں اور ہوٹلوں کی کثیف فضا میں جذب ہو جاتے تھے۔ باری صاحب قبر میں ہیں۔ معلوم نہیں اس میں بھی کوئی ایسی کھڑکی ہے جس سے وہ کود کر باہر نکل سکیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.