Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جوش ملیح آبادی: دیدہ و شنیدہ

شاہد احمد دہلوی

جوش ملیح آبادی: دیدہ و شنیدہ

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    میرے والد مرحوم کو اردو کی نئی مطبوعات منگانے کا شوق تھا۔ کتابیں اور رسالے چھپتے ہی ان کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے۔ غالباً ۲۵ء یا ۲۶ء کا ذکر ہے کہ نئی کتابوں میں ایک کتاب ‘‘روحِ ادب’’ بھی آئی تھی۔ یہ کتاب اس زمانہ میں شائع ہونے والی کتابوں میں یکسر مختلف تھی۔ اس کی ہر بات انوکھی تھی۔ ‘‘بانگ درا’’ کے سائز پر چھتی تھی، جو اس زمانے میں بالکل مروج نہیں تھا۔ کتابت و طباعت بڑی دیدہ زیب تھی۔ چند تصویریں بھی اس کتاب میں شامل تھیں۔ ‘‘روحِ ادب’’ میں چھوٹے چھوٹے شاعرانہ مضامین تھے۔ شاعرانہ مختصر مضامین لکھنے کا خبط اب سے چالیس سا پہلے ہر ادیب کو تھا۔ بلکہ اسے کمال نثرنگاری سمجھا جاتا تھا کہ ایسی عبارت لکھی جائے جس میں موٹے موٹے عربی فارسی کے الفاظ اور مغلق ترکیبیں ہوں اور اصل بات بہت ذرا سی ہو۔ بلکہ اگر اصل بات سرے سے اس میں ہو ہی نہیں تو اور بھی اچھا۔ اس صورت میں یہ تحریر ادیب کا شاہکار بن جاتی تھی۔ ایسے ہر ادیب کی ہر تحریر شاہکار تصور کی جاتی تھی۔ کتنے ہی ادیب ایسے تھے جو صرف شاہکار ہی لکھا کرتے تھے۔ اصل میں یہ بیماری گیتانجلی کے ترجمہ سےاردو میں پھیلی تھی۔ ٹیگور کی مابعد الطبیعاتی شاعری کو یار لوگ سمجھے ہوں یا نہ سمجھے ہوں جھٹ اس کے ترجمہ پر اتر آئے۔ چونکہ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا تھا اس لیے یہ سمجھ لیا گیا کہ ضرور اس میں کوئی بڑے کام کی بات کہی گئی ہے۔ حالانکہ آج تک یورپ والوں ہی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ملارمی اور ماترلنک قسم کے شاعر یہ کیا فرما گئے ہیں کہ

    ایک دروازہ کھلا

    ایک دروازہ بند ہوا اور

    ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔

    انھیں یہی معلوم نہ ہو سکا کہ اس پر کہاں سر دھنا جائے؟ ٹیگور نے بھی یہی گر استعمال کیا اور ئٹیس سے اسے جھنڈے پر چڑھا دیا۔ اردو کی شامت اعمال، یہ کتاب کہیں سے نیاز فتحپوری کے ہاتھ لگ گئی۔ عرض نغمہ کے نام سے اس کا ترجمہ فوراً تیار ہو گیا۔ نام ہی دیکھ لیجیے ‘‘عرض نغمہ’’۔ اس کے اندر جو گت ٹیگور کے شاہکار کی بنی ہے اسے کسی وقت فرصت سے دیکھیے گا تو اس کے جوہر آپ پر کھل جائیں گے۔ ہمارے ادیبوں کے ہاتھ ایک سہل نسخہ لکھنے لکھانے کا آیا، لگے سب کے سب عرض نغمہ کرنے۔ البتہ اتنا اضافہ ٹیگور پر اور کیا کہ اپنی تحریروں میں بہت سارے آہ۔۔۔ ڈیش اور نقطے اور ڈنڈے (!) جہاں تہاں ڈال دیے تاکہ پڑھنے والے ان ڈیشوں اور ڈنڈوں سے نفس مضمون کی بھیلی پرسر پھٹول کرتے رہیں۔ پیاز کو چھیلئے، پرت ہی پرت اترتے چلے جائیں گے، مغز آپ کہیں نہیں پائیں گے۔ یہی حال اس نیازی یا پیازی ادب کا تھا جسے ‘‘ادبِ لطیف’’ موسوم کیا گیا، جو دراصل ہماری نثر کا ‘‘چوما چاٹی اور سانڈے کے تیل’’ کا دور تھا۔

    بات میں سے بات نکل آئی۔

    ذکر جب چھڑگیا قیامت کا

    بات پہنچی تری جوانی تک

    ہاں تو ذکر تھا ‘روح ادب’ کا۔ اس میں جو نثر پارے درج تھے ان کاانداز تحریر روش عام سے یکسر مختلف تھا۔ واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ نثر میں نظمیں لکھی گئی ہیں۔ مصنف کا نام نواب شبیر حسین خان جوش ملیح آبادی۔ میں نے جوشؔ صاحب کو یہیں سے جانا پہچانا۔ اس کے بعد ‘‘ہمایوں’’ میں ان کا کلام بالالتزام شائع ہونے لگا اور بعض اور مقتدر ادبی رسالوں میں بھی۔ ساقیؔ میں جنوری ۱۹۳۰ء، یعنی پہلے ہی پرچے سے جوشؔ صاحب کا کلام آنے لگا۔ ۳۲ء میں مجھے اپنے منجھلے بھائی مبشر احمد اور دوسرے عزیزوں سے ملنے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے جن ادیبوں اور شاعروں سے حیدرآباد میں ملنا تھا ان کی فہرست خاصی طویل تھی۔ منجھو صاحب پولیس کے آدمی! انھیں تمام سلسلوں کی خبر تھی۔ فہرست دیکھ کر بولے ‘‘فرحت اللہ بیگ سے تمہیں سید وزیر حسن ملوائیں گے۔ فانی، جوش اور علی اختر سے کرنل اشرف الحق۔ مولوی عنایت اللہ سے تابش، میں بھی ساتھ چلا چلوں گا۔ تمکین کاظمی تو یہ سامنے ادارۂ علمیہ میں روز شام کو آتا ہے۔ اور یہ ناکارہؔ اور آوارہؔ اور کون کون ہے، انھیں تھانے میں یہیں کیوں نہ بلوا لیا جائے؟’’ میں نے کہا ‘‘مناسب نہیں ہوگا۔ پہلے میں ایک ایک بار سب کے ہاں ہو آؤں۔’’ بولے، تو پھر یہ کرتے ہیں کہ تھانے میں نہیں کھانے پر سب کو بلائے لیتے ہیں۔’’ میں نے کہا ‘‘اسے بھی بعد کے لیے اٹھا رکھو۔’’ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کرنل اشرف الحق باہر ہی سے آوازیں دیتے درآئے۔ ‘‘شاہد کہاں ہے، شاہد کہاں ہے؟’’ میں دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔ اس وقت مجھ سے عمر میں دُگنے تھے۔ میرے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ چودہ سال ولایت میں رہ کر ایڈنبرا سے ڈاکٹری کی سند لے کر آئے تھے اور قلعہ گولکنڈہ میں افواجِ باقاعدہ کے بڑے ڈاکٹر تھے۔ اللہ ان کی روح کو نہ شرمائے ہر وقت اتنی پیتے تھے کہ مرنے لگتے تھے۔ وہ تو شراب کو کیا چھوڑتے شراب انہیں چھوڑ دیتی تھی۔ اچھے ہونے کے بعد مہینوں نہیں پیتے تھے، پھر کوئی دوست ہشکا دیتا اور سلسلہ پھر جاری ہو جاتا۔ مگر اتنی پینے پر بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی بہکتے یا مدہوش ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ اس قدر عجیب و غریب کردار کے آدمی تھے کہ ان پر ایک علیحدہ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ منجملہ اور صفات کے شعر کہنے کا بھی خاص ملکہ رکھتے تھے۔ مگر ہزل تو کیا نرا کھرا فحش۔ عریاںؔ تخلص تھا۔ شعر شاعری کی وجہ سے حیدرآباد کے تمام شاعروں سے تعلق تھا اور سب کا دم بھی ان سے نکلتا تھا کیونکہ ذرا سی بات پر فحش ہجو لکھ دیا کرتے تھے اور ستم بالائے ستم یہ کہ خود جاکر اسے سنا بھی دیتے تھے۔ خیر تو ڈاکٹر صاحب سے یہ طے ہوگیا کہ جوشؔ صاحب سے مجھے وہاں اگلے دن ملوادیں گے۔ دوسرے دن صبح دس بجے ڈاکٹر صاحب آئے اور مجھے دارالترجمہ لے گئے۔ سب سے پہلے ابوالخیر مودودی سے ملوایا جو ابوالاعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی تھے۔ دھان پان سے نرم و نازک آدمی تھے مگر ان کے لفظ لفظ سے علمیت ٹپکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ خوش اخلاقی سے کھانے پر مدعو کیا۔ مولانا عمادی سے ملوایا۔ انھوں نے بھی دعوت کی پیشکش کی۔ جوشؔ صاحب سے ملوایا۔ گرم جوشی سے ملے۔ دعوت کا دن مقرر کر لیا۔ باہر نکل کر میں نے کہا ‘‘بھائی جان، اگر دعوتیں ایسی فراخ دلی سے منظور کی گئیں تو منجھو صاحب بگڑ جائیں گے۔’’ بولے، ‘‘میں منجھو کو سمجھا لوں گا۔’’ اس کے بعد گھڑی دیکھ کر بولے! ابھی دوپہر کے کھانے میں کچھ دیر ہے، لگے ہاتھوں علی اختر سے بھی مل لو۔ میں نے کہا چلیے۔ علی اختر کے گھر پہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ لڑکا برآمد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ‘‘ابا ہیں؟’’ وہ ہیں کہہ کر اندر بھاگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ‘’سنو۔ ان سے بولو شاہد احمد دہلوی ملنے آئے ہیں۔’’ لڑکا میرا نام جانتا تھا، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور تیتری ہو گیا۔ پانچ منٹ گذر گئے واپس نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آج کل علی اختر کے سارے جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آئی ہیں۔ دوا ملے بیٹھا ہوگا۔ دفتر سے چھٹی لے رکھی ہے۔ بارے لڑکا منہ لٹکائے واپس آیا اور نیچی نظریں کیے بولا ‘‘ابا کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔’’ جب ہم کار میں واپس آبیٹھے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ‘‘گھر ہی میں تھا۔’’ میں نے پوچھا تو ملے کیوں نہیں؟ بولے ‘‘کل معلوم ہو جائےگا۔’’ اگلے دن ڈاکٹر صاحب علی اختر کے ہاں سے ہوتے ہوئے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ ‘‘علی اختر ملے تھے اور بہت شرمندہ تھے کہ کل تم سے نہیں ملے۔ دراصل اس بیچارے کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ تمہاری دعوت کر سکے۔ یہاں کا رواج یہی ہے کہ مہمان کی دعوت ضرور کی جاتی ہے۔’’ ان کی اس حرکت پر مجھے غصہ بھی آیا اور ترس بھی آیا کہ محض ایک بیہودہ رواج کے باعث اس دفعہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔

    جوشؔ صاحب کے ہاں ڈاکٹر صاحب مجھے لے گئے۔ خاصی پر تکلف دعوت تھی۔ دسترخوان پر ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب بڑے زندہ دل آدمی تھے۔ روتوں کو ہنساتے تھے۔ جوشؔ صاحب شاعر بھی تھے اور بادہ خوار بھی، اس لیے ڈاکٹر صاحب سے ان کی خوب نبھتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی زبانی مجھے جوشؔ صاحب کے بہت سارے واقعات معلوم ہوئے۔ ان میں سے چند آگے بیان ہوں گے۔

    ڈاکٹر صاحب عمدہ ولائتی شراب پیا کرتے تھے۔ جوشؔ صاحب بلانوش تھے، جو بھی مل جائے چڑھا جاتے تھے۔ انہیں جب بھی فرصت ملتی شام کو ڈاکٹر صاحب کے ہاں جا پہنچتے، عمدہ اور مفت کی ملتی تھی اس لیے گلاس پر گلاس چڑھائے چلے جاتے۔ ڈاکٹر صاحب دو تین گلاسوں میں چھک جاتے تھے۔ بوتل یا تو ہفتہ میں ایک خرچ ہوتی تھی یا اب تیسرے ہی دن ان کی بیوی کہہ دیتیں کہ آپ شہر جائیں تو اپنی بوتل لیتے آئیں۔ شروع شروع میں تو یہ ڈھرا چلتا رہا مگر جب مہنگا پڑنے لگا تو ڈاکٹر صاحب کے نشے ہرن ہونے لگے۔ ایک دن شہر گئے تو ایک ولائتی بوتل بھی لائے اور دیسے ٹھرّے کی بھی۔ ٹھرا دیکھ کر ان کی بیوی چمکیں۔ ‘‘جب ٹھرّا آپ کو نہیں پچتا تو آپ کیوں لائے ہیں؟ اس موئے شرابی نے آپ کو بھی ٹھرے پر لگا دیا۔’’ ڈاکٹر صاحب نے بڑی متانت سے کہا ‘‘یہ ٹھرا اسی موئے شرابی کے لیے ہے۔’’ ڈاکٹر صاحب گلاس خود کبھی نہیں بناتے تھے۔ گھر میں بیوی بناکر دیتی تھیں اور گھر کے باہر ایک ملازم جو ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ اب یہ ہونے لگا کہ جب جوشؔ صاحب آجاتے تو ڈاکٹر صاحب کے آواز لگانے پر ملازم دو گلاس بیگم صاحب سے بنواکر یا خود بناکر لاتا اور ٹھرے والا گلاس جوشؔ صاحب کو بھڑا دیتا۔ جوشؔ صاحب کہتے کہ آپ نے بھی دیسی پینی شروع کر دی؟ تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہاں۔ مگر یہ دیسی اچھی ہے۔ فریب کایہ سلسلہ دنوں جاری رہا۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے خود ہی اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ ان کے دل میں کوئی بات رہتی نہیں تھی۔ شاید ہر شرابی کا دل منافقت سے خالی ہو جایا کرتا ہے۔

    جب جوشؔ صاحب کے لیے نظام دکن میر عثمان علی خان نے ملک بدری کا فرمان جاری کیا تو مجھے کسی نے حیدرآباد سے اطلاع دی کہ ساقیؔ میں ‘‘غزل گو سے خطاب’’ جو نظم جوشؔ کی چھپی ہے اس پر یہ عتاب ہوا ہے۔ پیشی کے ایک منہ چڑھے آدمی نے نظام کو سنکا دیا کہ حضور یہ گستاخی جوشؔ نے آپ کی شان میں کی ہے۔ اس زمانے میں جریدہ شاہی اور روزنامہ رہبر دکن میں روزنامہ میر عثمان علی خاں کی ایک پھسپھسی سی غزل مع رائے استاد جلیل چھپا کرتی تھی۔ یہ رائے بھی حضرت خود ہی لکھ دیا کرتے تھے کہ ‘‘سبحان اللہ! کیا غزل ہوئی ہے۔’’ مجھے اطلاع دینے والے نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ شاید راست میں ساقیؔ کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائےگا۔ مگر اس کی نوبت نہیں آئی۔ جوشؔ کو چوبیس گھنٹے میں ممالک محروسہ سے نکل جانے کا حکم ملا تھا۔ یہ بارہ ہی گھنٹے میں وہاں سے نکل لئے کہ کہیں ضبطی اور قید کا دوسرا فرمان جاری نہ ہو جائے۔ ‘‘رہبر دکن’’ میں روزانہ ذرا ذرا سی بات پر فرمان نکلتے رہتے تھے۔ سبحان اللہ! پڑھنے کے لائق ہوتی تھی عبارت اِن فرمانوں کی۔ کاش کوئی انہیں جمع کرکے شائع کر دے۔ خوجی اور حاجی بغلول کو آپ بھول جائیں گے۔ خیر، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ دراصل نظام کے منجھلے شہزادے معظم جاہ کے شبینہ دربار میں جوشؔ کا عمل دخل ضرورت سے زیادہ ہو گیا تھا۔ اس دربار کے واقعات سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ شرر کا دربارِ حرام پور اس کے آگے گرد تھا۔ جوشؔ اس دربار کے حاضر باش تھے۔ میں نے حیدرآباد کے ثقہ راویوں سے سنا ہے کہ معظم جاہ کے اشارے پر کل حاضر باش ننگے ہوکر ناچنے لگتے تھے اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا تھا وہ لکھا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی پکھیرو ذرا نہیں نکڑ کرتا تو پیش خدمتوں کو حکم ہوتا کہ آپ کو بنالاؤ۔ وہ اس غریب کو اٹھالے جاتے اور پچھاڑ کر اتنی پلاتے کہ اسے پنے تن بدن کا ہوش نہ رہتا، پھر اسے دربار میں برہنہ کرکے پیش کیا جاتا اور اسے اوندھا کرکے جلتی ہوئی موم بتی لگا دی جاتی۔ یہ منظر دیکھ کر سب کے دلوں کے کنول کھل جاتے۔ اور جب وہ ہوش میں آتا تو اس سے کہا جاتا ‘‘آئندہ سرکار کے کسی حکم سے سرتابی نہ کرنا۔’’ ان تمام بیہودگیوں کی اطلاع عالیجاہ کو پہنچتی رہتی تھی مگر وہ شفقت پدری میں مرے جاتے تھے۔ بیٹے سے تو کچھ نہ کہتے اس کے حاضر باشوں کی تاک میں لگ جاتے۔ چنانچہ طویلے کی بلا بندر کے سر، جوشؔ پر نزلہ گرانے کا انھیں بہانہ ہاتھ آ گیا۔ جوشؔ صاحب حیدرآباد چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد دلی آ گئے۔

    حیدرآباد میں جوش صاحب دارالترجمہ میں ناظر ادبی تھے۔ سنا ہے کہ علامہ اقبال سے کسی بڑے آدمی کے نام تعارفی اور سفارشی خط لےکر حیدرآباد گئے تھے۔ نرا کھرا شاعر سوائے شعر کہنے کے اور کیا کرسکتا ہے؟ مگر اس وقت مہاراجہ کرشن پرشاد جیسے علم دوست برسراقتدار تھے۔ وہ شاعروں کو بھی کہیں نہ کہیں کھپا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ فانیؔ کو انہوں نے کسی اسکول کا ہیڈماسٹر بنا دیا تھا اور یگانہؔ کو کہیں اضلاع میں سب رجسٹرار رکھوا دیا تھا۔ جوشؔ کو انہوں نے دارالترجمہ کی چول میں دھانس دیا۔ ان کا کام یہ تھا کہ تراجم کی نظرثانی کیا کریں۔ وہاں وہ کیا کرتے ہوں گے؟ اس کا اندازہ یہاں ترقی اردو بورڈ میں ان کی کارکردگی سے ہوا۔ بورڈ نے اردو کی نایاب اور کمیاب کتابوں کے شائع کرنے کا انتظام کیا ہے۔ مولوی نذیر احمد کی کتاب ‘‘منتخب الحکایات’’ کے متعلق بورڈ کے سکریٹری شان الحق صاحب کا ایک مراسلہ میرے نام آیا کہ آپ اس مطبوعہ کتاب میں جو غلطیاں کتابت و طباعت کی وجہ سے داخل ہو گئی ہیں ان کی تصحیح کر دیجیے اور کتاب پر آٹھ دس صفحے کامقدمہ لکھ دیجیے۔ پاکستان میں یہ کتاب مجھے کہیں نہیں ملی، لہٰذا دلی سے اس کا ایک نسخہ کسی نہ کسی طرح منگایا اور اسے ٹھیک ٹھاک کرکے بورڈ کو بھیج دیا۔ ایک مہینہ بعد حقی صاحب کا ٹیلیفون آیا کہ منتخب الحکایات کا کوئی اور نسخہ ہو تو بورڈ کو بھیج دیجیے۔ بورڈ اس کی قیمت ادا کر دےگا۔ میں نے کہا ‘‘قیمت تو اس کی چھ آنے یا آٹھ آنے ہی ہے، مگر وہ کتاب ملتی کہاں ہے؟ پہلے بھی مشکل سے ملی تھی۔’’ معلوم ہوا کہ ناظر ادبی نے نہ صرف میرے مقدمہ کی زبان ٹھیک کر دی بلکہ اصل کتاب کی زبان بھی ٹھیک کر دی اور فقرے کے فقرے اس بری طرح کاٹے ہیں کہ اصل عبارت پڑھی نہیں جا سکتی۔ میں نے کہا ‘‘خیر میری زبان تو وہ ٹھیک کر سکتے ہیں مگر جس کی کتابیں پڑھ کر ہم سب نے اردو زبان سیکھی ہے، اس کی زبان میں بھی جوشؔ صاحب کو غلطیاں نظر آ گئیں۔ ذرا مجھے اصلاح شدہ نسخہ بھیج دیجیے۔ تاکہ میں بھی جوش صاحب کے افادات سے محروم نہ رہوں۔’’ حقی صاحب بردبار آدمی ہیں، انھوں نے بہ لطائف الحیل اس قضیہ کو ٹالا اور میں نے دلی سے ایک اور نسخہ مہیا کرکے انہیں بھیجا۔ دارالترجمہ کے ناظم مولوی عنایت اللہ مرحوم برے مرنجان مرنج آدمی تھے۔ ان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا تھا کہ وہ جوشؔ صاحب سے خوش نہیں تھے۔ جب کام کرنے کا یہ اسلوب ہو تو کوئی خوش ہو بھی کیسے سکتا ہے؟

    دلی آنے کے بعد جوش صاحب نےایک ادبی ماہنامہ جاری کیا۔ انہوں نےیہ نہیں دیکھا کہ جو ادبی ماہنامے شائع ہو رہے ہیں ان کی مالی حالت کیسی ہے اور انھیں کیسے چلایا جا رہا ہے۔ یار لوگوں نے ورغلایا اور جوشؔ صاحب چڑھ گئے سولی پر۔ دریاگنج میں ایک مکان کرایہ پر لیا گیا اور بڑیوں کے کڑے میں دفتر کے لیے ایک بالا خانہ کروفر سے سجایا گیا۔ ایک دفعہ مجھے بھی اس دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جوش صاحب کو واہ واہ کرنے والے گھیرے رہتے۔ دن بھر چائے، شربت، پان، سگریٹ سے تواضع ہوتی۔ ادھر سورج غروب ہوا ادھر جوش صاحب پیمانہ بکف طلوع ہوئے۔ مفت خوروں کو بھی چپکی لگانے کا موقع ملا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ یہ شغل رہا۔ اس کے بعد سب اپنے اپنے گھر سدھارے۔ ادبی رسالے کہیں ایسے شاہ خرچیوں سے چلتے ہیں؟ چند مہینے بعد دفتر چھوڑنا پڑا۔ گھر ہی میں دفتر بھی چلا گیا۔ پرچہ چلنے کی کوئی صورت نہیں نکلی۔ جوشؔ صاحب کو یہ مغالطہ تھا کہ جتنی اچھی وہ نظم لکھتے ہیں اتنی ہی اچھی نثر بھی لکھتے ہیں۔ ایک نیا مضمون نگار اسرائیل احمد خاں انھوں نے خدا جانے کہاں سے تلاش کرکے نکالا تھا۔ وہ اینڈےبینڈے مضامین لکھا کرتا تھا۔ یہ زمانہ تھا ہمایوںؔ ادبی دنیا،، نیرنگِؔ خیال، عالمگیرؔ اور ساقیؔ کے شباب کا۔ جوشؔ صاحب نے محسوس کر لیا کہ پبلک بڑی ناقدر شناش ہے، وہ نسل کبھی مستقبل بعید میں پیدا ہوگی جو ان کے رسالہ ‘‘کلیم’’ کی صحیح قدردانی کر سکےگی۔ رسالہ بند کرنےکے بعد انہوں نے ایک مقامی پبلشر سے اپنی کتابیں چھپوانے کا معاملہ کیا۔ چندے ان کی رائلٹی پر گزارہ ہوا۔ پھر یہ سُا کہ ملیح آباد کی طرف ان کا کوئی بہت بڑا زمیندار عزیز مر رہا ہے یا مر گیا ہے اور اس کی پوری املاک کے وارث جوشؔ صاحب ہی ہیں۔ اب انھیں کئی کروڑ روپیہ ملنے والا ہے اس لیے وہ دلی سے چلے گئے ہیں۔ یہ سننے میں آج تک نہیں آیا کہ انھیں وہاں سے کیا ملا۔

    جوشؔ صاحب کے دورانِ قیام دہلی ہی میں ایک دفعہ کرنل اشرف الحق دلی آئے تو مجھ سے کا کہ جوشؔ صاحب کے ہاں چلو۔ میں نے کہا ‘‘مجھے تو ان کا گھر معلوم نہیں کہ کہاں ہے۔ کہیں دریاگنج میں رہتے ہیں۔ پھر آپ ہی نے تو کہا تھا کہ جوشؔ سے دور کی دوستی رکھنا۔ ویسے بھی میں شعر شاعری کا آدمی نہیں اور نہ جوشؔ کا ہم مشرب۔ آج تک میں ان کے گھر نہیں گیا اور نہ وہ میرے گھر آئے۔ سرِ راہے گاہے یا کسی اجتماع میں ان سے سرسری سی ملاقات ہوجایا کرتی ہے۔ آپ ان کے ہاں ہو آئیے میں ساتھ جاکر کیا کروں گا؟ ڈاکٹر صاحب نے اس زمانے میں شراب بالکل چھوڑ رکھی تھی۔ بولے ‘‘تمہارا چلنا ضروری ہے۔ اگر وہاں پینے پلانے کا قصہ ہوا تو تم مجھے روک سکوگے۔’’ لہٰذا مجھے ان کے ساتھ جانا پڑا۔

    مغرب کے بعد ہم جوش صاحب کے مکان پر پہنچے۔ نیچے ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں جوشؔ صاحب کے ساتھ پانچ سات آدمی بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو سب نے اٹھ کر تعظیم دی۔ ڈاکٹر صاحب نےکہا ‘‘شاہدؔ کو تو جانتے ہونا؟’’ جوشؔ صاحب نے کہا ‘‘جی ہاں۔ مگر کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔’’ بیٹھنے کے بعد اوروں سے تعارف ہوا۔ حکیم آزاد انصاری کو میں پہلے سے جانتا تھا۔ اب وہ جوشؔ صاحب کے ہاں مستقلاً آن پڑے تھے۔ بڑھاپے اور بیماری میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہا تھا۔ کبھی کسی کے ہاں اور کبھی کسی کے ہاں جا پڑتے۔ میزبان ان کے ہنر کی وجہ سے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیتا۔ اس کے بعد ان سے شعر کہلوا کہلواکر اپنی بیاض بھرتا۔ جب وہ اپنے شعر دینے میں پس و پیش کرتے تو میزبان اپرانے لگتا۔ حکیم صاحب اس بےغوری اور ناقدری کو تاڑ جاتے اور کسی اور شاگرد یا قدردان کے ہاں اٹھ جاتے۔ ایک صاحب کا تو پورا دیوان آزاد انصاری ہی کا کہا ہوا ہے۔ دلی میں انہوں نے کئی ٹھکانے بدلے۔ آخر میں ایک مفلس مگر مخلص شاگرد کے ہاں چلے گئے تھے اور جب ان کی حالت بگڑی اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو وہ غریب شاگرد حیدرآباد انھیں لے کر پہنچا اور ان کے بیٹے کے گھر انھیں چھوڑ آیا۔ بیٹا اچھا خاصا پیسے والا تھا۔ مگر بہ استکراہ اس نے باپ کو وصول کیا۔ بڈھے میں دھرا ہی کیا تھا۔ دو چار دن بعد اللہ کو پیارا ہو گیا۔ تو یہ آزادؔ انصاری بھی جوشؔ صاحب کے ہاں موجود تھے۔ نہالؔ سیوہاردی بھی پہنچے ہوئےتھے۔ دور شراب تو ہو ہی رہا تھا، ایک گلاس ڈاکٹر صاحب کے لیے اور ایک میرے لیے تیار کرکے پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ‘‘شاہد تو نہیں پیتے، اور میں نے بھی آج کل چھوڑ رکھی ہے۔’’ جوشؔ صاحب نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا

    ساقیؔ کے مدیر اور نہیں ہیں مخمور

    برعکس نہند نامِ زنگی کافور!

    کیا واقعی بالکل نہیں؟ میں نے کہا ‘‘جی ہاں، میں نہیں پیتا۔’’ جوش صاحب نے ازراہ عنایت مزید اصرار نہیں کیا مگر ڈاکٹر صاحب سےبولے ‘‘جی یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ کو تو پینی پڑےگی’’ یہ کہہ کر ان کے ہاتھ میں گلاس تھما دیا، میں نے ڈاکٹر صاحب کو ٹہوکا دیا مگر انھوں نے متاسّف نظروں سے میری طرف دیکھا اور چپکے سے بولے۔ ‘‘جوش نہیں مانتا۔ تھوڑی سی پی لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔’’ جوشؔ صاحب کو سرور گنٹھ رہا تھا، ان کی گل افشانی شروع ہو گئی۔ بلا کا حافظہ پایا ہے اس شخص نے۔ نشہ بڑھتا جاتا تھا اور زبان کھلتی جاتی تھی۔ ملحدانہ رباعیوں کے بعد اپنا فحش کلام سنانا شروع کر دیا۔ جب وہ بھی ختم ہو گیا تو فی البدیہ کہنا شروع کر دیا۔ مگر آخر میں اعتراف بھی کیا کہ اس کا استاد تو رفیع احمد خاں ہے۔ دو گھنٹے بعد میں نے اجازت چاہی تو ڈاکٹر صاحب بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے قدم لڑکھڑا رہے۔ بولے ‘‘شاہد، تم مجھے گھر پہنچاکر جانا۔’’ باہر نکل کر میں نے ترا ہا بیرم خاں کا تانگہ کیا۔ پھاٹک سے ٹیڑھی حویلی تک انہیں سہارا دے کر لے گیا۔ نیچے کرایہ دار تھے، اوپر کی منزل میں ڈاکٹر صاحب کا قیام تھا۔ زینہ طے کرنا ایک عذاب ہو گیا۔ جب انھیں ان کے کمرے میں پہنچایا تو ان کی چھوٹی بیگم جو ان کے ساتھ آئی تھیں بولیں ‘‘شاہد میاں، یہ کیا کیا؟’’ ڈاکٹر صاحب پھٹی پھٹی آنکھوں سے بیوی کی طرف دیکھتے رہے، میں نے کہا ‘‘بھابی، یہ جوش صاحب کے ہاں سے آ رہے ہیں؟’’ چیخ کر بولیں ‘‘اس ماٹی ملے کے پاس انھیں کون لے گیا تھا؟’’ میں نےکہا ‘‘خود ہی گئے تھے۔’’

    ‘‘شاہد میاں، تم نے بھی انھیں نہیں روکا؟’’

    ‘‘روکا تھا، بھلا یہ رکنے والے ہیں؟’’

    ڈاکٹر صاحب بڑبڑائے ‘‘عباسی، شاہد کو جانے دو۔ اسے دیر ہو رہی ہے۔’’

    اس کے بعد خدا جانے میاں بیوی میں کیا فضیحتا ہوا۔ اگلے دن ڈاکٹر صاحب میرے ہاں آئے تو ان کے بیگ میں ولائتی بوتل موجود تھی اور وہ ہر آدھ گھنٹہ بعد گلاس بنواتے اور پیتے رہے۔ ان کی شراب پھر شروع ہو گئی تھی اور اب خود ان کے روکے بھی نہیں رک سکتی تھی۔ پھر دو دن تک ڈاکٹر صاحب نہیں آئے تو مجھے مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر جانا پڑا۔ پہلے بھابھی اور بچوں کا کمرہ بیچ میں پڑتا تھا۔ بھابی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ بولیں ‘‘نہ کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ پی سکتے ہیں۔ ابکائی لگی ہوئی ہے۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں جاکر دیکھا کہ وہ بےسدھ پلنگ پر پڑے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر محمد عمر ان کے سرہانے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرے جاتے ہی ڈاکٹر عمر نے میری ٹانگ لی۔ ‘‘اماں کیوں لے گئے تھے انھیں اس کے پاس؟’’ میں نے کہا ‘‘اب کیفیت کیاہے؟’’ بولے ‘‘مر رہے ہیں۔’’ میرے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ لو بھئی، الٹی آنتیں گلے پڑیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو بھی کھانسی اٹھی اور وہ اوکتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے، چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی۔ سینے میں سانس نہ سماتا تھا۔ مگر خوش مزاجی کی وہی کیفیت۔ ہانپ کر بولے ‘‘بھائی یہ عمر کہتا ہے کہ میں مر رہا ہوں، مگر میں مروں گا نہیں، عباسی ایک گلاس بنا دینا۔’’ ڈاکٹر عمر نے کہا مرنے سے بدتر تو ہو گئے مگر چھوڑتے اب بھی نہیں۔ بولے تیری طرح کم ظرف تھوڑی ہوں، پینے کا نام بھی بدنام کرتا ہے۔’’ اتنے میں عباسی بیگم گلاس بنا لائیں۔ ڈاکٹر صاحب کے منہ سے لگا دیا۔ پی کر بولے ‘‘بھائی اب میری دوا بھی یہی ہے۔’’ غرض ڈاکٹر صاحب ایک ہفتہ تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ بیہوشی میں ڈاکٹر عمران ان کے انجکشن لگاتے رہے۔ ہوش میں آنے کے بعد انہوں نے شراب نہیں پی۔ مہینہ بھر میں ساؤنٹے ہو گئے اور خیر سے حیدرآباد سدھارے۔

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پطرس بخاری نے مجھے رُقعہ بھیجا اور زبانی بھی کہلوا بھیجا کہ سالک صاحب آئے ہوئے ہیں، کل رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا۔ میں وقتِ مقررہ سے کسی قدر پہلے پہنچ گیا تاکہ سالک صاحب سے باتیں کرنے کا موقع مل جائے۔ ہم دو چار آدمی سالک صاحب سے گپ شپ کر رہے تھے کہ جوشؔ صاحب بھی آن پہنچے۔ علیک سلیک کے بعد کوٹھی کے برآمدے میں گئے۔ وہاں جگل کشور مہرا بیٹھے ہوئے تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور پطرس بخاری کے پرسنل اسسٹنٹ تھے۔ جوش صاحب نے ان سے پوچھا ‘‘پینے پلانے کے لیے کیا ہے؟’’ انہوں نے گھبراکر کہا ‘‘بخاری صاحب تو نہیں پیتے۔’’ جوش صاحب نے کہا ‘‘وہ نہیں پیتے تو کیا ہم تو پیتے ہیں۔ جاؤ بخاری صاحب سے کہو کہ ہمارے لیے کچھ پینے کو بھیجیں۔’’ وہ دوڑے ہوئے آئے اور بخاری سے کچھ کھسر پھسر کرکے پھر جوش صاحب کے پاس پہنچے۔ خبر نہیں ان دونوں کے درمیان کیا گزری۔ مہان آنے شروع ہو گئے، آنے والوں میں بڑے متضاد قسم کے لوگ تھے۔ خواجہ حسن نظامی بھی تھے اور دیوان سنگھ مفتوں بھی۔ تقریباً بیس جغادری قسم کے حضرات کھانے پر جمع ہو گئے۔ جوش صاحب الگ گھاس پر ٹہلتے رہے تھے۔ مجھےان کے قریب جگہ ملی۔ پوچھنے لگے اسے کس نے بلا لیا؟ میں نے کہا ‘‘کسے؟’’ خواجہ صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ بولے ‘‘جب سے یہ آیا ہے واللہ کفن و کافور کی بو چلی آ رہی ہے۔’’ ان کے اس فقرے کا مزہ اوروں نے بھی لیا اور بات شدہ شدہ بخاری صاحب تک بھی پہنچ گئی۔ وہ کھکھلاکر ہنسے۔ اس کے بعد جوشؔ صاحب نے بھری میز پر بخاری صاحب کو مخاطب کرکے کہا ‘‘دو شعر ہو گئے ہیں، سُن لیجیے۔’’ مجھے تو شعر ویر یاد نہیں رہتے۔ مطلب یہ تھا کہ نام تو بخاری ہے مگر جندڑی اتنی سی ہے کہ پینے کو شراب مانگو تو، ملتا ہے ٹھنڈا، برف کا سادہ پانی۔ سب نے واہ واہ سبحان اللہ میں ان اشعار کو اڑا دیا۔ خود بخاری صاحب نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا بل کہ خوب داد دی۔

    فتحپوری کے قریب ایک ہوٹل میں فراقؔ گورکھپوری دلی آکر ٹھہرےتھے۔ شام کو ان کے کمرے میں بہت سارے پینے والے شاعر جمع ہوئے۔ ان میں جوشؔ، نہالؔ، مجازؔ اور تاثیرؔ بھی تھے۔ جوشؔ صاحب تو شاعر انقلاب ہونے کے علاوہ شاعر اعظم بھی ہیں مگر اپنے پندار میں فراقؔ ان سے اپنے آپ کو کم نہیں کچھ زیادہ ہی سمجھتے تھے۔ جوشؔ نے جب رباعیاں کہنی شروع کیں تو فراقؔ نے بھی اردو ہندی آمیز زبان میں روپ سروپ کی رباعیوں کی بھرمار شروع کر دی۔ جوشؔ صاحب نے کبھی کسی سے مقابلہ نہیں کیا۔ خبر نہیں یہ ان کی بزدلی ہے یا شرافت۔ مگر فراق صاحب ہمیشہ میدان میں اتر آتے ہیں اور شمشیر براں بن جاتے ہیں۔ ویسے تو جوشؔ اور فراقؔ میں بڑا دوستانہ تھا اور دونوں ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے مگر فراقؔ، جوشؔ کو اپنا حریف سمجھتے تھے۔ جب ہوٹل کے کمرے میں کئی دور ہو گئے تو پینے والوں کے دل کھل گئے اور دلوں کے ساتھ زبانیں بھی کھل گئیں۔ جوشؔ اور فراقؔ میں چلنی شروع ہوئی، پہلے مذاق ہی مذاق میں پھر نشہ زدہ سنجیدگی کے ساتھ۔ حاضرین میں سے کچھ جوشؔ کے ساتھ ہو گئے اور کچھ فراقؔ کے ساتھ۔ فراقؔ کچھ حد سے آگے ہی نکل گئے۔ نوبت تیزم تازی اور گالی گلوج تک پہنچی۔ اس میں ذرا کمی آتی تو تاثیرؔ کبھی جوشؔ کو شہ دیتا اور کبھی فراقؔ کو۔ فراق ایسے بے قابو ہوئے کہ ماں بہن کی گالیوں پر اتر آئے۔ جوش نےان گالیوں کو بھی کڑوا گھونٹ بناکر حلق سے نیچے اتار لیا مگر جب فراق نے بیٹی کی گالی دی تو جوش کے تیور بگڑ گئے۔ بولے ‘‘ہم پٹھان ہیں، اب ہم آپ کو قتل کر دیں گے۔’’ یہ کہہ کر اٹھنے لگے تو سب نےبڑھ کر ان کو پکڑ لیا اور معاملہ رفع دفع کیا۔ اس سارے قضیئے میں تاثیر کے چہرے پر جو خباثت کی خوشی تھی وہ دیکھنے کی چیز تھی۔

    جوشؔ صاحب اور علی اختر مرحوم کاکسی بات پر اختلاف ہوا۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ کوئی بڑی بیہودہ بات ہوئی ہوگی جوش صاحب کی طرف سے جو علی اختر جیسے سادھو قسم کے آدمی کو ناگوار گزری۔ اس زمانے میں نیازؔ فتحپوری بھی حیدرآباد پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے مراسم دونوں شاعروں سے تھے۔ علی اختر تو بے چارے خاموش ہو گئے مگر نیاز صاحب نے محسوس کیا کہ انہیں جوشؔ سے بدلہ لینا چاہیے۔ چنانچہ لکھنؤ واپس پہنچ کر نیاز صاحب نے ‘‘نگار’’ میں کلام جوشؔ پر تنقید لکھنے کا سلسلہ جاری کر دیا۔ جوشؔ نے بڑی عقلمندی کا ثبوت دیا کہ یکسر خاموشی اختیار کی۔ نیاز صاحب بک جھک کر خود ہی خاموش ہو رہے۔ جس نوعیت کی تنقید نیاز صاحب لکھتے ہیں اس سے خود اپنی علمی فوقیت جتانا مقصود ہوتا ہے مگر پڑھنے والا بھانپ جاتا ہے کہ اس میں جونجھ تو بہت ہوتی ہے خلوص مطلق نہیں ہوتا۔ ‘‘اس مصرعہ میں 'دب رہی ہے۔ یہ مصرعہ چست نہیں ہے۔ پہلے مصرعہ کا دوسرے مصرعہ سے ربط نہیں ہے۔ اس میں تنافر ہے۔ اگر یہ مصرعہ یوں ہوتا تو بہتر تھا۔’’ اس کے بعد وہ اپنی اصلاح پیش کر دیتے ہیں اور شعر کا اگلا روپ بھی کھو دیتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ‘‘نگار’’ کا ‘‘جگر نمبر’’ شائع کیا ہے۔ ان کا اندازِ تنقید ملاحظہ فرما لیا جائے۔

    کرنل اشرف الحق بڑے جہاں دیدہ اور گرم و سرد زمانہ چشیدہ آدمی تھے۔ اوپر سےبالکل ٹھنڈے اور اندر لاوا کھولتا رہتا تھا۔ دوچار ہی باتوں میں تاڑ جاتے تھے کہ کون کتنے پانی میں ہے، ورنہ آزمانے کے لیے کوئی اشقلہ چھوڑ دیتے تھے۔ دکن میں کاماٹنیں رکھنے کا عام رواج تھا۔ یہ نیچ قوم کی جوان عورتیں ہوتی ہیں جو عموماً اوپر کے کام کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک سنگ اسود کی ترشی ہوئی جوان کاماٹن یلا ڈاکٹر اشرف کے ہاں ملازم تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ ایک شام کو آواز دنیے پر یلا دو گلاس اندر سے بنواکر لائی۔ جوشؔ صاحب اس کالی پری کو دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ‘‘دیکھتے کیا ہو، اوپر لے جاؤ۔’’ بس اتنا کہنا کافی تھا، آ گئے تڑی میں۔ لگے ایک طرف لے جاکر التفات کرنے۔ اس نے جھڑک دیا۔ ناکام واپس آئے تو ڈاکٹر صاحب نےکہا ‘‘سنو جوشؔ، بیوی میری بھی جوان ہے۔ تمہارا کیا اعتبار، کل کو تم اس پر بھی ہاتھ ڈال دوگے۔ لہٰذا آج سے یہ سلسلہ بند۔’’ جوشؔ پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور شرمندگی میں انہوں نے واقعی گولکنڈہ آنا جانا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر صاحب ہی جوشؔ کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے۔

    دلی میں ایک جید عالم ہیں مولانا عبدالسلام۔ قلندر مزاج اور یونانِ قدیم کے رواتی فلسفیوں جیسے آدمی ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو کے منتہی ہیں۔ جس علم سے کہو خدا کے وجود کو ثابت کر دیتے ہیں۔ ان کا سکوت پہاڑوں کا سکوت اور گفتگو دریاؤں کی روانی ہے۔ اب تو اسی سے اونچے ہوں گے۔ جوشؔ صاحب جب دلی آئے تو ان کی تعریف سن کر ان سےملنے گئے۔ مولانا نے جب جوشؔ صاحب کے خاےلات سنے تو ان کا ناریل چٹخا۔ بولے ‘‘تمہارا دماغ تو شطاان کی کھڈّی ہے۔’’ اس سے مختصر اور جامع تجزیہ جوشؔ صاحب کا نہیں ہو سکتا۔

    جوش صاحب کٹر کانگریسی تھے۔ مسلمانوں سے انہیں کیا ملتا؟ مسلمان ان کے ملحدانہ اور گستاخانہ خیالات کی وجہ سے انہیں برا سمجھتے تھے، لہٰذا یہ ہندؤں سے جا ملے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور مسز سروجنی نائیڈو جیسے ادب دوستوں نے ان کی سرپرستی قبول کر لی تھی۔ ایسے رکابییہ مذہب والوں کا کوئی کردار تو ہوتا ہی نہیں۔ جہاں دیکھتا تو اپات، وہیں گزاری ساری رات۔ کردار تھا یگانہ کا کہ بھوکوں مرا، ذلت و خواری اٹھائی، اور مرتے مر گیا مگر اپنی بات پر اڑا رہا۔ جوش نے ہمیشہ اپنے تر نوالے کی خیر منائی۔ جو شخص خدا کا مذاق اڑا سکتا ہے اور ابلیس و ابو جہل کی عظمت کی قسم کھا سکتا ہے۔ اس کے لئے پاکستان اور قائد اعظم کو برا بھلا کہنا کیا مشکل ہے۔ جو شخص ازراہ تمسخر نہیں بلکہ نہایت سنجیدگی سے ایسی باتیں کرتا ہو تو اس کے لئے مسلمان کیا اور پاکستان کیا! ڈٹ کر پاکستان کی مخالفت کی اور قیام پاکستان کے بعد ہندوستان ہی میں رہ گئے۔ ہندو پرستی کا یہ عالم رہا کہ گاندھی جی کے ہلاک ہونے پر جوش صاحب نے اپنی نظم ’’شہید اعظم‘‘ لکھی۔ ہر چند کہ جوش صاحب کے گزشتہ اعمال اس لائق تھے کہ انہیں پاکستان بدر کر دیا جاتا تاہم پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام نے وسیع القلبی سے کام لے کر انہیں امان دی اور ترقیٔ اردو بورڈ میں سولہ سو روپے ماہانہ پر لغت نویسی کے کام پر انہیں لگا دیا۔ جوش اور لغت نویسی! ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ! یہی وہ زمانہ تھا کہ موصوف نے ایک طویل نظم ’’چناجورگرم‘‘ لکھی جس میں پاکستان کی بھٹی اڑائی اور جسے وہ بڑے طمطراق سے اپنے مخصوص حلقوں میں سنانے پھرتے تھے بےدینی اور پاکستان دشمنی کے باوجود، اور حکموت ہند کی سرپرستی کے باوصف جوش صاحب ہندوستان میں نہیں رہ سکے اور پاکستان آ گئے۔ خبر نہیں ان کی غیرت نے اس کیسے قبول کر لیا بے دینی کا داغ چھپانے کے لئے انہوں نے مرثیے کہنے شروع کئے اور پاکستان دوستی کے اظہار کے لئے صدر ایوب کی کی شان میں ایک ناصحانہ قصیدہ کہا جو تیوں سمیت آنکھوں میں گھسنا اس کو کہتے ہیں۔

    پاکستان بن جانے کے بعد جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے تھے ان کی وفاداری کو ہمیشہ شبہ کی نظر سے حکومت ہند نے دیکھا۔ یہاں تک کہ ابوالکلام آزاد کے بعض بیانات پر پٹیل نے انہیں بھی مطعون کیا۔ مگر جوش صاحب کی وفاداری کسی کو شتبہ نظر نہ آئی۔ پنڈت نہرو مروت کے آدمی ہیں، انہوں نے ان کے حلوے مانڈے کا انتظام کر دیا۔ تقریباً دو ہزار روپے ماہانہ کی انہیں یافت کرا دی گئی۔ کام کچھ نہیں، صرف نگرانی اور مشورہ۔ حکومت ہند نے انہیں ’’پدم بھوشن‘‘ کے اعلیٰ خطاب سے بھی نواز دیا۔ دس سال تک جوش صاحب ہندوستان میں خوب موج مارتے رہے۔ لیکن ہندو ایک مسلمان کو اچھے حالات میں دیکھنا بھلا کیسے پسند کر سکتے تھے۔ تاک میں لگے رہتے اور ان کی ذرا ذرا سی بات کی گرفت کرتے جوش صاحب ایک غیرمحتاط آدمی، قدم قدم پر ان سے لغزش ہوتی۔ خفیف الحرکتی اور بعض غلط باتیں بھی کرتے۔ یار لوگ بڑھا چڑھا کر اوپر کے حلقوں میں پہنچاتے اور وزیر اعظم کے کان بھرتے ۔ پنڈت جی طرح دے جاتے۔ مگر چشم پوشی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ جوش صاحب کی ساکھ اتنی بگڑ گئی کہ ہندوستان میں ان کا مزید قیام خطرے میں پڑ گیا۔ جب دلی کی فضا ان کے لئے ضرورت سے زیادہ گرم ہو گئی تو انہوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں آکر کراچی کے چیف کمشنر نقوی سے ملے اور ان کے ذریعہ صدر سکندر مرزا سے۔ لو صاحب! یہاں کوئی چار ہزار روپے ماہانہ کا ان کے لئے انتظام ہو گیا۔ یہاں کا معاملہ پکا کر کے موصوف پھر دلی پہنچے اور سنا ہے کہ پاکستان کی پیشکش دکھا کر پنڈت جی سے پھر معاملت کرنی چاہی۔ مگر وہاں سے جواب مل گیا کہ آپ کا پاکستان چلا جانا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ اردو ہندی اور اپنے بچوں کے مستلہا پر ایک بیان دے کر جوش صاحب کراچی چلے آئے۔ ادھر اخبار والوں کو سن گن مل گئی کہ نقوی صاحب نے جوش پر درسی کے لئے کیا کیا اسباب مہیا کئے ہیں۔ اردو اخباروں میں لے دے شروع ہو گئی اور جوش صاحب ’’از آن سو راندہ و ازیں سو درماندہ‘‘ کی زندہ مثال بن کر رہ گئے۔ چار ہزار روپے ماہوار کا سہانا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔

    اپنے موجودہ حالات سے جوش صاحب سخت نامطمئن و ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مجھ پرپندرہ بیس افرادِ خاندان کا بار ہے۔ اپنی اولاد کے علاوہ اولاد کی اولاد کے بھی جوشؔ صاحب ہی کفیل ہیں۔ بیاہی تیاہی بیٹی اور داماد بھی انہی کے سر ہیں۔ سنا ہے کہ داماد صاحب بی۔اے، بی ٹی ہیں۔ اسکول کی ملازمت کو بہت گھٹیا چیز تصور کرتے ہیں۔ حضرت جوشؔ کا داماد اور اسکول ماسٹری! دنیا کیا کہے گی؟ لہٰذا مع بیوی اور جوان جوان بچوں کے جوشؔ کے گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور شاعر انقلاب کی عزت و آبرو کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جوشؔ صاحب ستّر کے لپیٹے میں ہیں۔ اتنی عمر اور اتنی دنیا دیکھنے کے بعد بھی ان کے مزاج کا بھولپن نہیں گیا۔

    بھولپن پر ان کے مزاج کا ایک اور پہلو یاد آ گیا۔ اپنی شاعری کی بدولت جوش صاحب ہمیشہ سے حکام رس رہے ہیں۔ اہل غرض انھیں گھیرے رہتے ہیں۔ سعی سفارش کرنےمیں ذرا بھی ہچر مچر نہیں کرتے۔ سفارش بیشتر نالائقوں ہی کی کی جاتی ہے۔ جوشؔ صاحب نے کسی بڑے آدمی سے کسی کی سفارش کی اور اس کی تعریف کے پل بھی باندھ دیے۔ بڑے آدمی نے کہا ‘‘مگر جوشؔ صاحب، یہ صاحب تو اس جگہ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔’’

    ‘‘جی اور کیا بالکل ناموزوں ہیں۔’’

    ‘‘تو اس صورت میں یہ جگہ تو انہیں نہیں دی جا سکتی۔’’

    چلیے چھٹی ہوئی۔ امیدوار سے کہہ دیا کہ ‘‘صاحب آپ تو اس جگہ کے لیے قطعی ناموزوں ہیں۔’’

    اس نے واویلا مچایا کہ ‘‘حضرت مجھ سے زیادہ موزوں تو کوئی اور ہے ہی نہیں۔’’

    ‘‘یقیناً آپ سے زیادہ موزوں کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے۔’’

    ‘‘صاحب یہ بڑا متعصب افسر ہے۔’’

    ‘‘جی ہاں۔ میرا بھی یہی اندازہ ہے۔ سخت متعصب ہے کم بخت۔’’

    غالباً جوش صاحب سب کو خوش کرنےکی کوشش کرتے ہیں اس لیے ان کی گفتگو ہمیشہ اثباتی ہوتی ہے۔ اسے آپ چاہیں تو ان کا بھولپن کہہ لیں، چاہے یہ کہہ لیں کہ جوش صاحب بے پیندی کے بدھنے ہیں۔

    اسی سے ملتا جلتا واقعہ گلڈ کے قیام کے وقت پیش آیا۔ جمیل جالبی صاحب سے جوش صاحب کا خاصہ ربط ضبط ہے۔ طے پایا کہ جمیل صاحب جاکر جوش صاحب کو گلڈ کے پہلے اجلاس میں شرکت کی دعوت دیں۔ جمیل صاحب نے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ ڈرگ روڈ میں ان کی کوٹھی پر پہنچ کر پھاٹک پیٹا تو ایک ادھیڑ عمر کے صاحب تشریف لائے اور بولے ‘‘آہا، میں اطلاع کرتا ہوں۔’’ جمیل صاحب نے بتایا کہ یہی وہ جوشؔ صاحب کے معروف داماد ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔ تھوڑی دیر میں لوٹ کے آئے اور بولے ‘‘چلے جائیے’’۔ کمرے میں جوشؔ صاحب براجمان تھے اور ان کے چند ہوا خواہ انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ جمیل صاحب نے گلڈ کی مختصر روداد سنائی اور جوش صاحب سے شرکت کی استدعا کی۔ بولے ‘‘ضرور، ضرور۔ مگر آپ آکر مجھے لے جائیں۔’’ جمیل صاحب نے کہا ‘‘میں خود آکر آپ کو لے جاؤں گا۔’’ مگر وقت مقررہ پر جب جمیل صاحب انہیں لینےگئے تو بے نیلِ مرام واپس آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جو لوگ انہیں گھیرے رہتے ہیں۔ انہوں نےجوشؔ صاحب کو یہ کہہ کر ہُشکا دیا کہ گلڈ کی طرف سے آپ کو کوئی عہدہ تو پیش ہی نہیں کیا گیا۔ اس صورت میں آپ کا جانا مناسب نہیں۔ دوسرے دن الیکشن ہونے والا تھا۔ اس میں پانچ چھ سو ادیب اور شاعر عہدیداروں اور مجلس عاملہ وغیرہ کا انتخاب کرنے والے تھے۔ گھر بیٹھے جوشؔ صاحب کو عہدہ کون دے جاتا؟ چنانچہ آج تک جوشؔ صاحب گلڈ کے ممبر نہیں بنے اور ان کے دل میں یہی سمائی ہوئی ہے کہ انہیں گلڈ میں کوئی بڑا عہدہ ملنا چاہیے۔ گویا گلڈ میں عہدوں کی خیرات بٹ رہی ہے جس کی تقسیم ان کے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔

    بہت سی خرابیاں ہیں جوشؔ صاحب میں۔ خرابیاں سب میں ہوتی ہیں، کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ مگر اپنی تمام خرابیوں کے باوجود جوشؔ ایک مقناطیسی شحصیت کے مالک ہیں۔ ان سے طبیعت متنفر نہیں ہوتی۔ ان سے محبت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ شعر کا تو ان کے جواب ہی نہیں ہے۔ مشاعروں میں جب وہ پڑھتے ہیں تو سب کے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ باتیں بھی بھولی بھولی اور مزے دار کرتے ہیں۔ بس۔وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ایک پٹا ہوا مفلس شاعر پاکستان میں ان سے لپٹ گیا۔ کبھی حیدرآباد میں ان کی جان کو لگا رہتا تھا۔ کچھ عرصہ ہوا اچانک اس کا انتقال ہو گیا۔ اللہ اس کی روح کو نہ شرمائے، بڑا ہی بے غیرت تھا۔ جوشؔ صاحب نے اس کا نام ہی کتا رکھ دیا تھا۔ سنٹرل ہوٹل میں جوشؔ صاحب کو کسی نے عصرانہ دیا۔ عصرانہ ختم ہوا، جوشؔ صاحب نے اپنا کلام سنانا شروع کیا کہ مرحوم سپڑ سپڑ کرتا آ پہنچا۔ جوش صاحب نے میزبان سے کہا ‘‘دیکھو، وہ کتا آیا ہے، اسے کچھ کھانے کو دو۔’’ کتے نے خوب سیر ہوکر کھایا اور داد دینے آ بیٹھا۔ مرحوم ہرفن مولا تھا، نثر بھی لکھتا تھا، شعر بھی کہتا تھا، یزید کی تعریف میں ایک پوری کتاب بھی اس نے لکھی تھی جسے چھاپنے کے لیے اسے کوئی پبلشر نہیں ملتا تھا۔ گانے بجانے میں بھی کچھ دخل تھا۔ کھانے بھی پکا لیتا تھا۔ ایک دفعہ جوشؔ صاحب سے بولا۔

    ‘‘مچھلی تو کبھی میں آپ کو پکاکر کھلاؤں گا۔ آپ انگلیاں ہی چلاٹتے رہ جائیں گے۔’’

    ‘‘ارے بھئی تو کھلاؤ نا کسی دن۔’’

    ‘‘کل ہی لیجیے۔’’

    اگلے دن وہ مچھلی پکا کر لے گیا۔ اچھی پکائی تھی، مگر چلتے وقت پتیلی کے ساتھ سولہ روپے کچھ آنے بھی لاگت کے جوشؔ صاحب سے لے گیا۔

    جوشؔ صاحب جس گھن گرج کے شعر کہتے ہیں پڑھتے بھی اسی گھن گرج سے ہیں۔ روزانہ صبح کو باقاعدگی سے شعر کہتے ہیں۔ شائقین ان کا کلام سننے کے لیے بےتاب رہتے ہیں۔ آج تک کوئی پھسپھسا شعر ان کا نہیں سنا۔ سابق چیف کمشنر نقوی نے سابق صدر سکندر مرزا کو باور کرادیا تھا کہ جوشؔ اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے، یہ لطیفہ حکومت کے ایک بڑے عہدیدار نے سنایا کہ کوئی وزیر قسم کا انگریز پاکستان آیا ہوا تھا۔ ایوانِ صدر میں اس کے اعزاز میں ڈنر تھا۔ معزز مہمانوں میں جوشؔ صاحب بھی شامل تھے۔ آج کل تو کھڑا کھانا (بوُفے) ہوتا ہے۔ کھاتے بھی جاؤ اور ذرا ٹہل ٹہل کر مہمانوں سے باتیں بھی کرتے جاؤ۔ معزز مہمان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے سکندر مرزا جوشؔ صاحب کے قریب آ گئے۔ جوشؔ صاحب کا نام تو انہیں یاد نہ آیا، تعارف کراتے ہوئے بولے۔

    “MEET THE GREATEST POET OF URDU’’

    وہ بھی ایک ہی بوجھ بجھکڑ تھا۔ ہاتھ بڑھا کر بولا۔

    “OH! SEE! SO YOU ARE MR. GHALIB.”

    انجمن دانشورانِ ادب کے صدر جناب عبدالخالق عبدالرزاق ایک قابل اور علم دوست آدمی ہیں۔اصل وطن تو دلی تھا مگر سالہا سال سے کراچی میں رہتے ہیں۔ سگریٹ کنگ کہلاتے ہیں۔ مہینے دو مہینے میں ان کے ہاں ایک پرتکلف دعوت ہوتی ہے۔ جس میں پندرہ بیس ممبر اور دو چار اعزازی مہمان شریک ہوتے ہیں۔ اتفاق سے اس انجمن کے تقریباً تمام ممبر خوش خور بھی ہیں (سوائے جناب صدر کے، جو کھاتے کم ہیں مگر کھلاکر زیادہ خوش ہوتے ہیں) لہٰذا شیخ صاحب کھانےکا نت نیا اہتمام کرتے ہیں۔ کبھی بریانی اور قورمہ کی دعوت ہوتی ہے، کبھی سیخ کے کباب اور پوریوں کی۔ کبھی مرغ مسلم کی، اور کبھی آموں کی۔ جاڑوں میں نہاری اور پایوں کی دعوت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اس میں جوشؔ صاحب بھی شریک ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب ان کے قدردان اور ناز برداز ہیں۔ اس لیے ان کے لیے عمدہ سے عمدہ شراب بھی منگواتے ہیں۔ مغرب کے بعد ہی مہمان جمع ہوجاتے ہیں۔ فضلی، ماہرالقادری، محمد تقی، رئیس امروہوی، جون ایلیا، رزاق الخیری، اے ڈی اظہر، صہباؔ لکھنوی، ممتاز حسین، شان الحق حقیؔ، الطاف گوہر، مہاجر صاحب اور کئی اور حضرات جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے، شیخ صاحب کی کوٹھی کے کشادہ اور سرسبز صحن میں بیضوی حلقے میں کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ مہمان آتے جاتے ہیں اور بیٹھتے جاتے ہیں۔ ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی ہیں۔ جوشؔ صاحب کی میز الگ ایک طرف لگی ہوئی ہے۔ شراب کی بوتل ہے، سوڈا ہے، تھرمس میں برف کی ڈلیاں ہیں، دو گلاس ہیں۔ ایک ٹائم پیس بھی میز پر دھری ہوئی ہے۔ کیونکہ جوشؔ صاحب گھڑی رکھ کر پیا کرتے ہیں۔ وقت ختم ہوا شراب کا دور ختم ہوا۔ مجازؔ مرحوم کو بھی جوشؔ صاحب نے نصحتو کی تھی کہ مارں گھڑی رکھ کر پا کرو۔ اس بلانوش نے جواب مںش کہا تھا کہ ‘‘مروا بس چلے تو گھڑا رکھ کر پوہں۔’’

    جوشؔ صاحب کا ساتھ دینے کے لیے ایک اور صاحب جا بیٹھے ہیں۔ جوشؔ پیتے رہتے ہیں، یہ چسکی لگاتے رہتے ہیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں جوشؔ صاحب پانچ چھ گلاس پی جاتے ہیں، یہ دو ہی میں چھک جاتے ہیں اور جب کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگتی ہیں۔ جوشؔ صاحب میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ کھانے کا وقت ہو گیا۔ لمبی میز پر کھانا چنا گیا۔ کھڑا کھانا بھی ہوتا ہے اور بٹھا کھانا بھی۔ جوش صاحب کا کھانا انہی کی میز پر پہنچ گیا۔ ماشاء اللہ خوش خور ہیں۔ جبھی تو ستر سال کی عمر میں بھی ٹانٹے بنے ہوئے ہیں۔ سچ ہے ‘‘ایک ڈاڑھ چلے، ستر بلاٹلے۔’’ شیخ صاحب ایک ایک کے پاس جاکر کہتے ہیں ‘‘آپ نے یہ تو لیا ہی نہیں۔’’ آپ تو کچھ کھا ہی نہیں رہے۔’’ بھائی آپ کیا کر رہے ہیں؟ یہ لیجیے نا۔’’ اصرار کر کر کے سب کو کھلا رہے ہیں۔ ‘‘شیخ صاحب، آپ بھی تو کچھ لیجیے نا’’، ‘‘جی ہاں، میں بھی کھا رہا ہوں۔’’ یہ کہہ کر انھوں نے کچھ چینگ لیا اور آگے بڑھ گئے۔ ماہرالقادری کھانےکے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔ یعنی اتنا کہ اس کے بعد مزید انصاف کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اتنے میں برف میں لگے ہوئے آم آ جاتے ہیں تو مولانا تاسف سے فرماتے ہیں ‘‘ارے! یہ تو پہلے بتا دینا چاہیے تھا کہ آم بھی ہیں۔’’ میں نے کہا ‘‘یہی تو نقصان ہے مولانا شارٹ ہینڈ میں کھانے کا۔’’ اور صہباؔ کہتےہیں ‘’قوم کا نقصان کر دیا شیخ صاحب نے۔’’ پھر قوم آموں پر دست درازی شروع کرتی ہے مگرمولانا ماہر القادری بھی تین دانوں سے زیادہ نہیں کھا سکتے۔ آموں سے نمٹنے نہیں پاتے کہ آئس کریم آ جاتی ہے۔ مولانا افسردگی سے کہتے ہیں ‘‘لیجیےابھی یہ بھی باقی ہے۔’’ اس کے لیے بھی کہیں نہ کہیں گنجائش نکل آتی ہے۔

    کھانے سے فارغ ہوکر سب کرسیوں کے حلقے میں آ بیٹھتے ہیں۔ جوشؔ صاحب بھی حلقے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے دائیں ہاتھ سے شعر خوانی کا چکر چلتا ہے۔ شاعر اپنا اپنا کلام سناتے ہیں۔ آخر میں جوش صاحب کا نمبر آتا ہے۔ وہ خوب اسٹیم بھر چکے ہیں۔ ایک بیاض سامنے رکھ کر شروع ہو جاتے ہیں۔ کس بلا کا کلام ہے! سُننے والے پھڑک پھڑک کر داد دیتے۔ بیسیوں بند کی طویل نظم ہے مگر اکھرتی نہیں۔ جی یہی چاہتا ہے کہ نظم کبھی ختم نہ ہو۔ اور ماشاء اللہ کتنی جان ہے پڑھنے والے میں۔ پوری آواز سے پڑھتے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا۔ آواز کھر کھرائی تک نہیں۔ کیا اس شاعر کا یہی ایک وصف ایسا نہیں کہ اس کے تمام عیوب کو نظر انداز کرکے اسے گلے سے لگا لیا جائے؟

    نازت بکشم کہ ناز نینی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے